اس بابت احادیث حد استفاضہ[1] کو پہنچی ہوئی ہیں کہ توحید کے قائل گنہ گاروں کو بالآخر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
پس اہل سنت والجماعت (اس باب میں ) وعید کی نفی کرنے والے مرجیئہ اور اس کو واجب کرنے والے قدریہ کے درمیان اعتدال اور صراط مستقیم پر ہیں ۔ چناں چہ ان کے نزدیک کبیرہ کا جو مرتکب توبہ کیے بغیر مر جائے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے بخش دے جیسا کہ گزشتہ مذکورہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے اور اگر وہ کبیرہ کے مرتکب کو سزا دے گا بھی تو کافروں کی طرح ہمیشہ دوزخ میں نہ رکھے گا بلکہ (ایک وقت ) اس کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
ایمان اور دین کے اسماء میں راہِ اعتدال:
’’وفی باب اسماء والایمان والذین‘‘ سے علامہ رحمہ اللہ اسماء اور احکام کے مسئلہ کو بیان کر رہے ہیں جو اسلام میں پہلا مسئلہ تھا جس میں مختلف جماعتوں میں اختلاف ہوا۔ چناں چہ سیاسی واقعات کا اور اس دور میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی جنگوں کا، جن کے نتیجہ میں خوارج، روافضی اور قدریہ کی جماعتیں پیدا ہوئیں ، اس اختلاف پر بے حد اثر مرتب ہوا۔
احکام اور اسماء سے کیا مراد ہے؟
اسماء سے یہاں مراد دینی اسماء جیسے مومن، مسلم کافر، فاسق وغیرہ ہیں ، اور احکام سے مراد دینا و آخرت میں ان ناموں والوں کے احکام ہیں ۔
’’مروریہ خوارج‘‘ اور معتزلہ اس طرف گئے ہیں میں معتزلہ اور خوارج کے مومن اور کافر کے لفظ کے بارے میں بھٹکتے نظریات کی تصدیق، زبان سے انکار کا اقرار، اس کے واجبات کو قائم اور جملہ کبائر سے اجتناب کرے۔ لہٰذا اس بات میں دونوں فرقوں (خوارج اور معتزلہ) کا اتفاق ہے کہ مرتکب کبیرہ کو مومن نہ کہا جائے گا۔ البتہ اس کو کافر کہنے یا نہ کہنے میں ان کا اختلاف ہے۔ چناں چہ خوارج مرتکب کبیرہ کو کافر کا نام دے کر اس کی جان و مال کو حلال سمجھتے ہیں ، اسی بنا پر ان بدبختوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان دونوں بزرگوں کے اصحاب کو کافر کہا اور ان کی ان
|