ان کا طریق وہ دین اسلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے لیکن جب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ عنقریب میری اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ہر ایک فرقہ جہنم میں داخل ہو گا سوائے ایک کے۔‘‘[1] اور فرقہ ’’الجماعت‘‘ ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس پر قائم ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘
پس جو لوگ ہر قسم کے شک و شبہ سے خالی اور پاک خالص اسلام کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں وہی اہل سنت و الجماعت ہیں ، انہیں میں صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں ، انہیں میں سے ہدایت کے مینارے اور اندھیروں کے چراغ ہیں جو ان ماثور و مذکور فضائل و مناقب والے ہیں ۔ انہیں میں ابدال اور وہ ائمۂ دین ہیں جن کے ہدایت یافتہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ یہی وہ طائفہ منصورہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے ایک طبقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا جنھیں نصرت و غلبہ حاصل ہو گا انہیں کسی مخالف کی مخالفت کا اور کسی کا انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دینا نقصان نہ دے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔‘‘
ہم رب ذوالجلال کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان میں سے بنادے اور ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت سے نوازے، بے شک وہ بہت عطا کرنے والا ہے۔ اور اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔
_________________________________________________
شرح:…
اہل سنت والجماعت کے اخلاق و شمائل کا بیان:
اس فصل میں علامہ رحمہ اللہ نے ان سب بنیادی مکارم اخلاق کو بیان کیا ہے جن کے ساتھ اہل سنت و الجماعت موصوف ہوتے ہیں ۔ جیسے امربالمعروف کرنا۔ معروف اس فعل کو کہتے ہیں جس کا حسن و خوبی اور اس کا اچھا ہونا عقل و شروع دونوں کے نزدیک معروف اور جانا پہچانا ہو۔
اسی طرح نہی عن المنکر کرنا۔ اور منکر ہر اس برے فعل کو کہتے ہیں جس کی قباحت عقل و شرع دونوں کے نزدیک ثابت اور مسلم ہو۔ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو اسی قدر ادا کرتے ہیں جتنا شریعت واجب کرے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ’’تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (اس منکر کو بدلے) اور اگر وہ اپنی زبان سے بھی اس کی
|