دوسرا نہیں پایا جا سکتا بلکہ جب بھی معتدبہ صحیح ایمان پایا جائے گا اس کے ساتھ اسلام بھی ضرور پایا جائے گا۔ اس طرح اس کے بالعکس ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک کو ذکر کر دینے کے بعد دوسرے کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیوں کہ جب ایک کو الگ ذکر کیا جاتا ہے تو دوسرا اس میں داخل ہوتا ہے لیکن جب دونوں کو ملا کر ذکر کیا جاتا ہے تو پھر ایمان سے مراد تصدیق اور اعتقاد ہوتا ہے جب کہ اسلام سے مراد ظاہری تابعداری ہوتی ہے جیسے زبان سے اقرار اور اعضاء و جوارح سے عمل۔
لیکن یہ مطلق ایمان کی نسبت ہے البتہ جب مطلق ایمان مراد لیا جائے تو وہ اسلام سے ’’خاص مطلق‘‘ ہوتا ہے کہ کبھی اسلام اس مطلق ایمان کے بغیر بھی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا﴾ (الحجرات: ۱۴)
’’دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ (یوں ) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ۔‘‘
چناں چہ یہاں بدو یوں سے ایمان کی نفی کرنے کے باوجود اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ اور حدیث جبرئیل علیہ السلام میں تین مراتب ذکر ہیں ، اسلام، ایمان اور احسان۔ جو اس بات پر دلالت ہے کہ تینوں میں سے ہر ایک حسب مراتب ما قبل سے اخص ہے۔
_________________________________________________
اصل متن :… فصل : ((ومن أصول أھل السنۃ والجماعۃ سلامۃ قلوبہم وألسنتھم لأصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم کما وصفھم اللّٰه بہ فی قولہ تعالیٰ: ﴿وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر: ۱۰) وطاعۃ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فی قولہ: ((لا تسبوا أصحابی، فوالذی نفسی بیدہ لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا ما بلغ مد أحدھم ولا نصیفہ)) ویقبلون ما جاء بہ الکتاب والسنۃ والاجماع من فضائلھم ومراتبھم و یفضلون من أنفق من قبل الفتح وھو صلح الحدیبیۃ وقاتل علی من أنفق من بعد وقاتل ویقدمون المھاجرین علی الأنصار ویؤمنون بأن اللّٰه قال لأھل بدر وکانوا ثلاثمائۃ و بضعۃ عشر: ((اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم)) وبأنہ لا یدخل النار أحد بایع تحت الشجرۃ کما أخبر بہ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بل لقد رضی اللّٰه عنہم ورضوا عنہ،
|