Maktaba Wahhabi

88 - 505
اَلْعَقُوْبَۃُ فِيْ الدُّنْیَا، وَ بِالْعَذَابِ الْأَلِیْمِ عَذَابُ الْآخِرَۃِ۔‘‘[1] ’’ارشادِ تعالیٰ{اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ}، سے مراد یہ ہے، کہ حکمِ (مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت ان دو میں سے ایک بات کو واجب کرنے والی ہے۔ [فِتْنَۃٌ] سے مقصود دنیا میں سزا اور [عَذَابٌ اَلِیْمٌ] سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔‘‘ تین تنبیہات: اس مقام پر شاید درجِ ذیل باتوں کی طرف توجہ مبذول فرمانے کی درخواست ہے: i: [فِتْنَۃٌ] کی تفسیر میں علمائے امت کے متعدّد اقوال ہیں۔ & حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد قتل، & امام عطاء کی رائے میں زلزلے اور مصیبتیں، & حضرت جعفر بن محمد کے قول کے مطابق ان پر مسلّط کیا ہوا جابر حاکم ہے۔ & یہ بھی بیان کیا گیا ہے، کہ اس سے مراد دلوں پرمہر کا لگایا جانا ہے۔ شاید اس بارے میں سب سے درست بات …جیسا کہ علامہ شوکانی نے بیان کیا ہے…[2] یہ ہے، کہ یہ کسی خاص نوعیت کے فتنے کے ساتھ مخصوص نہیں۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ جس قسم کے عذاب کا بھی فیصلہ فرماتے ہیں، نافرمانوں پر نازل ہو جاتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْہُ۔[3] ii: آیت شریفہ میں لفظ [أَوْ] …بقول قاضی ابو سعود… [مَنْعُ الْخُلُوّ] کے لیے ہے، [مَنْعُ الْجَمْعِ] کی غرض سے نہیں۔[4]
Flag Counter