Maktaba Wahhabi

459 - 505
بَلَغَ،فَإِنَّہٗ فِيْ آخِرِہٖ تَیْسِیْرٌ مُلَازِمٌ لَہٗ۔‘‘[1] [’’اُسے یعنی [عسر کو] الألف اور اللام [ال] سے معرفہ بنانے میں، جو کہ استغراق اور عموم کا فائدہ دیتا ہے، اس بات پر دلالت ہے، کہ بلاشبہ ہر تنگی کے آخر میں، چاہے وہ کتنی کٹھن ہو، آسانی چمٹی ہوئی ہے۔‘‘] ۳: [اَلْعُسْرِ] کے ساتھ لفظ [بَعْدَ] کی بجائے [مَعَ] لانا: i: علامہ رازی نے اس حوالے سے ایک سوال اُٹھا کر خود ہی اُس کا جواب دیا ہے: ’’اَلسُّؤَالُ الثَّانِيْ: اَلْیُسْرُ لَا یَکُوْنُ مَعَ الْعُسْرِ لِأَنَّہُمَا ضِدَّانِ، فَلَا یَجْتَمِعَانِ؟[2] [’’دوسرا سوال: آسانی [تو] تنگی کے ساتھ نہیں ہوتی، کیونکہ وہ دونوں تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اِس لیے وہ بیک وقت جمع نہیں ہوتیں؟ [مقصود یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے [ہر تنگی کے ساتھ آسانی] کہنے کی کیا حکمت ہے؟] علامہ رحمہ اللہ خود ہی جواب دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’لَمَّا کَانَ وُقُوْعُ الْیُسْرِ بَعْدَ الْعُسْرِ بِزَمَانٍ قَلِیْلٍ، کَانَ مَقْطُوْعًا بِہٖ، فَجَعَلَ کَالْمُقَارِنِ لَہٗ۔‘‘[3] [’’جب [تنگی] کے تھوڑے وقت کے بعد [آسانی] کا آنا قطعی (بات) تھی، تو اُسے گویا کہ اُس (یعنی آسانی) کے ساتھ ہی قرار دیا گیا]۔ ii: قاضی ابو سعود کا بیان: ’’وَفِيْ کَلِمَۃٍ [مَعَ] إِشْعَارٌ بِغَایَۃِ سُرْعَۃِ مَجِيْئِ الْیُسْرِ کَأَنَّہٗ
Flag Counter