فرماتے ہوئے سنا:
’’ مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یُصَابُ بِمُصِیْبَۃٍ ، فَیَفْزَعُ إِلٰی مَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ ، مِنْ قَوْلِہٖ:
[{اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ} اَللّٰہُمَّ! عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیْبَتِيْ، فَأْجُرْنِيْ فِیْہَا، وَعُضْنِيْ مِنْہَا]،
إِلَّا آجَرَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہَا، وَ عَاضَہٗ خَیْرًا مِنْہَا۔‘‘[1]
[کسی مسلمان کو کوئی مصیبت نہیں پہنچتی، تو وہ ارشادِ تعالیٰ میں موجود حکمِ الٰہی کی طرف لپکتا ہے:
{اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ}
اَللّٰہُمَّ! عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیْبَتِيْ، فَأْجُرْنِيْ فِیْہَا، وَعُضْنِيْ مِنْہَا]۔
مگر اللہ تعالیٰ اُسے اُس (مصیبت) پر ثواب دیتے ہیں اور اس سے بہتر بدل عطا فرماتے ہیں]۔ [2]
مصیبت کی تلخی کے علاج میں [إِنَّا لِلّٰہِ …] کی تاثیر:
امام ابن قیم تحریر کرتے ہیں:
’’وَہٰذِہِ الْکَلِمَۃُ مِنْ أَبْلَغِ عِلَاجِ الْمُصَابِ، وَأَنْفَعِہٖ لَہٗ فِيْ عَاجِلَتِہٖ وَآجِلَتِہٖ،فَإِنَّہَا تَتَضَمَّنُ أَصْلَیْنِ عَظِیْمَیْنِ إِذَا تَحَقَّقَ الْعَبْدُ
|