Maktaba Wahhabi

352 - 505
باقی جہاں تک مقتول اور اسی طرح دیگر مظلوموں کے حقوق کا تعلق ہے، تو شاید توبہ کرنے والے کی صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مظلومین کو اپنی طرف سے اجر و ثواب دے کر روزِ قیامت راضی فرما دیں اور قاتل اور ظالم کا نامۂ اعمال سچی اور کھری توبہ کی وجہ سے گناہوں سے پاک کر دیں۔ شرحِ حدیث: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’وَ فِيْ الْحَدِیْثِ مَشْرُوْعِیَّۃُ التَّوْبَۃِ مِنْ جَمِیْعِ الْکَبَآئِرِ حَتّٰی مِنْ قَتْلِ الْأَنْفُسِ۔ وَ یُحْمَلُ عَلٰی أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی إِذَا قَبِلَ تَوْبَۃَ الْقَاتِلِ تَکَفَّلَ بِرِضَا خَصْمِہٖ۔‘‘[1] [’’(اس) حدیث میں تمام کبیرہ گناہوں سے، حتیٰ کہ جانوں کے قتل سے بھی، توبہ کرنے کا شرعی طور پر درست ہونے کا (ثبوت) ہے اور یہ بات سمجھی جائے گی، کہ قاتل کی توبہ قبول ہونے کی صورت میں، اُس کے خلاف مدعی کو راضی کرنا، خود اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیں گے۔‘‘] ۳: مغفرت کی طلب میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑنا: بندے پر لازم ہے، کہ توبہ کرنے میں بہت جلدی کرے۔ تاخیر و توقف بالکل نہ کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو، کہ مصائب کی سنگینی اور کثرت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے یا اس کی موت کا وقت آ پہنچے اور اُسے توبہ کا موقع میسر ہی نہ آئے۔ دو دلائل: i: {وَسَارِعُوْٓا إِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ}[2]
Flag Counter