Maktaba Wahhabi

316 - 505
تعالیٰ کے روبرو) عجز و انکساری پر مشتمل ہونے کی بنا پر صبر کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ ساری چیزیں (ذکر و دعا و خضوع) جاہ پسندی اور اوامر و نواہی سے سرکشی کے منافی ہیں۔‘‘] ii: شیخ سعدی: ’’وَأَمْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی بِالْإِسْتِعَانَۃِ بِالصَّلَاۃِ، لِأَنَّ الصَّلَاۃَ ھِيَ عِمَادُ الدِّیْنِ، وَنُوْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَھِيَ الصِّلَۃُ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ رَبِّہٖ۔ فَإِذَا کَانَتْ صَلَاۃُ الْعَبْدِ صَلَاۃً کَامِلَۃً مُجْتَمِعًا فِیْہَا مَا یَلْزَمُ فِیْہَا، وَمَا یُسَنُّ، وَحَصَلَ فِیْھَا حُضُوْرُ الْقَلْبِ الَّذِيْ ھُوَ لُبُّھَا، فَصَارَ الْعَبْدُ إِذَا دَخَلَ فِیْہَا اِسْتَشْعَرَ دُخُوْلَہٗ عَلٰی رَبِّہٖ، وَوُقُوْفِہٖ بَیْنَ یَدَیْہِ مَوْقِفَ الْعَبْدِ الْخَادِمِ الْمُتَأَدِّبِ، مُسْتَحْضِرًا لِّکُلِّ مَا یَقُوْلُہٗ وَمَا یَفْعَلُہٗ، مُسْتَغْرِقًا بِمُنَاجَاۃِ رَبِّہٖ وَدُعَائِہٖ، لَا جَرَمَ أَنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃُ مِنْ أَکْبَرِ الْمَعُوْنَۃِ عَلٰی جَمِیْعِ الْأُمُوْرِ۔‘‘[1] [’’اور اللہ تعالیٰ کا نماز کے ذریعہ اعانت طلب کرنے کا حکم اِس لیے ہے، کیونکہ بلاشبہ نماز دین کا ستون، مؤمنوں کا نور اور بندے کو اُس کے رب کے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ جب بندے کی نماز کامل ہو، اپنے واجبات اور سنتوں پر مشتمل ہو، دورانِ نماز حضورِ قلب، جو کہ اس کی روح ہے، موجود ہو، اس میں داخل ہوتے وقت یہ شعور ہو، کہ بندہ اپنے رب کے حضور پہنچا ہے اور ایک باادب خادم اور غلام کی مانند اُن کے روبرو کھڑا ہے، جو کچھ کہہ اور کر رہا ہو، وہ اس کے پیشِ نظر ہو، وہ اپنے رب سے سرگوشیوں اور فریادوں میں مگن ہوا ہو۔ بلاشک شبہ ایسی نماز تمام معاملات میں سب سے بڑی اعانت والی باتوں میں سے ہے۔‘‘] iii: علّامہ الوسی:
Flag Counter