Maktaba Wahhabi

273 - 505
اَلسَّابِعَۃُ عَشَرَۃَ: اَلرِّضَا الْمُوْجِبٌ لِرِضْوَانِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔ فَإِنَّ الْمَصَآئِبَ تَنْزِلُ بِالْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ فَمَنْ سَخِطَہَا فَلَہُ السَّخَطُ وَ خُسْرَانُ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ، وَ مَنْ رَضِیَہَا فَلَہُ الرِّضَا۔[1]،[2] [سترہواں: (مصیبتوں پر) اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو واجب کرنے والی رضامندی، کیونکہ مصیبتیں نیک و بد (سب) پر نازل ہوتی ہیں، پس جو ناراض ہوا، اُس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) ناراضی اور دنیا و آخرت کا خسارہ ہے اور جو راضی ہوا، تو اُس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے۔ سیّد قطب ابتلاؤں اور سختیوں کے فوائد بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’فَالشَّدَآئِدُ تَسْتَجِیْشُ مَکْنُوْنَ الْقُوَی وَ مَذْخُوْرَ الطَّاقَۃِ، وَ تَفْتَحُ فِيْ الْقَلْبِ مَنَافِذَ وَ مَسَارِبَ مَا کَانَ لِیَعْلَمَہَا الْمُؤْمِنُ فِيْ نَفْسِہٖ إِلَّا تَحْتَ مَطَارِقَ الشَّدَآئِدِ۔ وَ الْقِیَمُ وَ الْمَوَازِیْنُ وَ التَّصَوَّرَاتُ مَا کَانَتْ لِتَصِحَّ وَ تَدُقَّ وَ تَسْتَقِیْمَ إِلَّا فِيْ جَوِّ الْمِحْنَۃِ الَّتِيْ تَزِیْلُ الْغَبَشَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَ الرَّانَ عَنِ الْقُلُوْبِ۔‘‘[3] ’’مشکلات مخفی صلاحیتوں اور ذخیرہ شدہ قوتوں کو ابھارتی ہیں اور دلوں میں اُن راہوں اور راستوں کو کھول دیتی ہیں، کہ اگر سختیوں کے ہتھوڑے نہ چلتے، تو مومن اپنے نفس میں اُن کے وجود سے آگاہ ہونے والا نہ تھا۔ اقدار، پیمانے اور تصورات صرف ایسی سختی ہی کی فضا میں سیدھے ہوتے اور درست اور صحیح نہج پر آتے ہیں، جو کہ آنکھوں سے پردہ اور دلوں سے زنگ کو دُور کر دیتی ہے۔‘‘ حاصلِ کلام یہ ہے، کہ جس کسی پر مصیبتیں آئیں، وہ ان فوائد کو یاد کرے اور انہیں
Flag Counter