Maktaba Wahhabi

233 - 505
’’اس (یعنی مصیبت کی بنا پر آنے والی پریشانی) کے علاج میں یہ بھی ہے، کہ وہ (اس حقیقت کو) سمجھ لے، کہ جس نے اُسے اِس (مصیبت) کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا ہے، وہ احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین ہیں۔ انہوں نے اِس پر مصیبت اِس لیے نازل نہیں کی، کہ وہ اُسے ہلاک کر دیں، یا عذاب دیں یا نیست و نابود کر دیں، بلکہ وہ تو اُس کے صبر، اُن کی قضا پر اُس کی رضا اور اُس کے ایمان کا امتحان لیتے ہیں۔ وہ اُس کی گریہ زاری اور آہ و بکا کو سننا چاہتے ہیں۔ وہ اسے اپنے دروازے پر گرا پڑا، اپنی جناب میں پناہ طلب کرنے والا، اپنے رُو برو ٹوٹے ہوئے دل والا، اپنے حضور دکھڑا پیش کرنے والا دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔‘‘ شیخ عبدالقادر نے … ’’اے میرے چھوٹے سے (یعنی پیارے) بیٹے! بلاشبہ مصیبت اس لیے نہیں آئی، کہ تجھے ہلاک کرے، وہ تو درحقیقت تیرے صبر و ایمان کے امتحان کی غرض سے آئی ہے۔ اے میرے چھوٹے سے (پیارے) بیٹے! تقدیر درندہ ہے اور درندہ مردار نہیں کھاتا۔‘‘ مقصود یہ ہے، کہ مصیبت بندے کے لیے بھٹی ہے، جس میں اُس کی اصل حقیقت کو پگھلایا جاتا ہے، تو وہ سرخ سونا (یعنی اس کی مانند) ہو کر نکلتا ہے، یا کلی طور پر خباثت کی شکل میں نکلتا ہے۔ جیسے کہ کہا گیا ہے: [ترجمہ: ہم نے اسے پگھلایا اور ہم اسے چاندی سمجھتے تھے، تو بھٹی نے لوہے کے زنگ کو ظاہر کر دیا]۔ اگر اُسے دنیا میں یہ بھٹی فائدہ نہ دے، تو اُس کے آگے سب سے بڑی بھٹی ہے۔ جب بندے کو علم ہو جائے، کہ اس کا دنیا کی بھٹی اور پگھلانے والی جگہ میں داخل
Flag Counter