Maktaba Wahhabi

97 - 242
’’سیّدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں کہ بعد میں معلوم ہونے والی بات اگر مجھے پہلے ہی معلوم ہو جاتی تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو آپ کی بیویوں کے سوا کوئی اور غسل نہ دیتا۔‘‘ نیز نیل الاوطار میں ہے: ((اِنَّ الصِّدِّیْقَ رضی اللّٰہ عنہ اَوْصٰی اِلٰی اَسْمَائَ زَوْجَتَہٗ اَنْ تَغْسِلَہٗ فَغَسَلَتْہٗ))[1] ’’سیّدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات سے ذرا پہلے اپنی رفیقہ حیات سیّدہ اسماء ( رضی اللہ عنہا ) کو وصیت کی کہ ان کو وہ غسل دیں چنانچہ انہوں نے آپ کو غسل دیا۔‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ الْمَرَأَۃَ یَغْسِلُھَا زَوْجُھَا اذا ماتت وہی تغسلہ قیاسا بغسل اسماء لابی بکر کما تقدم وعلی لفاطمۃ کما اخرجہ الشافعی ولدار قطنی وابو نعیم والبیہقی باسناد حسن ولم یقع من سائر الصحابۃ انکار علی علی واسماء فکان اجماعا))[2] ’’ان احادیث میں دلیل ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی بھی اسی طرح اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے نیز اسماء ( رضی اللہ عنہا ) نے اپنے خاوند سیّدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو اور سیّدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی بیوی سیّدہ فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) کو غسل دیا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا بنابریں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی موت پر غسل دے سکتے ہیں ۔‘‘ اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث کے مطابق خاوند اپنی بیوی کا جنازہ بھی پڑھ سکتا
Flag Counter