Maktaba Wahhabi

92 - 242
اِلٰی ہٰذَا الْمَعْنَی الْحَافِظُ فِی ’’الْفَتْحِ‘‘ بِقَوْلِہٖ: ’’یُسْتَفَادُ مِنْہُ اَنَّ حُرْمَۃَ الْمُوْمِنِ بَعْدَ مَوْتِہٖ بَاقِیَۃٌ کَمَا کَانَتْ فِیْ حَیَاتِِہ‘‘ وَمِنْ ذَالِکَ یُعْرَفُ الْجَوَابُ عَنِ السُّوَالِ الَّذِیْ یَتَرَدَّدُ عَلٰی اَلْسِنَۃِ کَثِیْرٍ مِنَ الطُّلاَّبِ فِیْ کُلِّیَّاتِ الطِّبِّ وَہُوَ: ہَلْ یَجُوْزُ کَسْرُ الْعِظَامِ لِفَحْصِہَا وَاِجْرَائِ التَّجَرُّبَاتِ الطِبِّیَّۃِ فِیْہَا؟ وَالْجَوَابُ: لَا یَجُوْزُ ذٰلِکَ فِیْ عِظَامِ الْمُوْمِنِ وَیَجُوْزُ فِیْ غَیْرِہَا وَیُوَیِّدُہٗ بِنَبْشِ قُبُوْرِ الْکُفَّارِ لِاَنَّہٗ لَا حُرْمَۃَ لَہَا کَمَا دَلَّ عَلَیْہِ مَفْہُوْمَ الْحَدِیْثِ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رضی اللّٰہ عنہ فَاَمَرَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِقُبُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّیَتْ))[1] یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مسلمان میت کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کے برابر (گناہ) ہے۔ حدیث کے الفاظ ’’عظم المومن‘‘ سے صرف مومن و مسلمان کی تخصیص ہوتی ہے، کافر اس حکم میں شامل نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ لہٰذا میڈیکل کالجز کے طلباء اور طالبات کفار کی نعشوں پر تجربات اور تحقیق کر سکتے ہیں ، چونکہ ان کی نعشوں کی حرمت ان کے کفرکی وجہ سے باقی نہیں ہوتی۔ اس کی تائید سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے ایک قطعہ زمین کا خریدا جس میں ان کی قبریں تھیں ۔ زمین خریدنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کو اکھاڑنے اوربرابر کرنے کا حکم فرمایا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کو اکھاڑ کر پیوند خاک کر دیا اور قبرستان میں جو درخت تھے وہ بھی کاٹ دیے۔ علمائے کرام اور بالخصوص الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے فتوے کے مطابق مسلمان میت کا پوسٹ مارٹم جائز ہے اور نہ ڈائی سیکشن۔ ان دونوں کاموں میں مومن مسلمان کی
Flag Counter