Maktaba Wahhabi

28 - 242
ازاں بعد مراحق اور پھر جوان ہوتا ہے یہ ساری تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِینٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ،﴾ (المومنون: ۱۲۔ ۱۴) ’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیداکیا ہے،پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفہ کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ۔ پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا، پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا تو اللہ جو سب سے بہتربنانے والا بڑابا برکت ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ جب ماں کے رحم میں جسم تیارہو چکا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بے جان جسم میں اپنی روح پھونکتا ہے۔ تب کہیں جا کر اس خاک کے پتلے میں زندگی کے تمام آثار و افعال پیداہوتے ہیں ، یعنی حرکت اضطراب، سمع و بصر، گفت و شنید و نشست و برخاست، خورد و نوش، آمد و رفت اور فہم و ادراک کی تمام قوتیں اس روح کی مرہون منت ہیں ۔ گویا اس طرح اس کی صورت ہی بدل جاتی ہے، جس کو پہلی صورت (بے جان پتلے) سے کوئی مناسبت ہی نہیں رہتی۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ اس لیے کافر اور ملحد کے نظریے کے برعکس مسلمان کانظریہ ہوتا ہے کہ میں نہ تو عناصر اربعہ کی ترکیب و ترتیب (بخت و اتفاق) کا کرشمہ ہوں ، اور نہ کسی حادثہ کی پیداوار ہوں بلکہ خلاق ازل (اللہ تعالیٰ) کی صفت ’’خلق‘‘ کا شاہکار اور مظہر اتم ہوں اور جس خالق حقیقی نے مجھے زندگی اور اس کے جملہ لوازمات عطا فرمائے ہیں ، ان کا مجھ سے حساب بھی ضرور چکایا جائے گا۔ اس لیے مومن کے قلب صافی پر دنیا کی بے ثباتی اور اس کی ناپائیداری ثبت ہوتی ہے اور اس کا یہ
Flag Counter