Maktaba Wahhabi

206 - 242
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور معجزہ سے استدلال درست نہیں ۔‘‘ شبہ2:..... صحیح بخاری میں ہے کہ جب میت کو دفن کر کے واپس آنے لگتے ہیں تو میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردے میں قوت سماع ہے۔ جواب:..... اس شبہ کے جواب میں علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں : ((اِنَّہٗ یَخُصُّ ذٰلِکَ بِاَوَّلِ الْوَضْعِ فِی الْقُبُوْرِ مُقَدَّمَۃٌ لِلسُّؤَالِ جَمْعًا بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ الْاٰیَتَیْنِ فَاِنَّہٗ شِبْہٌ فِیْمَا الْکُفَّارُ بِالْمَوْتٰی لِعَدْمِ الْاِفَادَۃِ بَعْدَ سَمَاعِہِمْ وَ ہُوَ فَرْعٌ عَدْمِ سَمَاعِ الْمَوْتٰی کَذَا ذَکَرَہٗ فِیْ فَتْحِ الْقَدِیْرِ))[1] ’’یہ سماع اول وقت کے ساتھ مخصوص ہے جب منکر نکیر قبر میں سوال کرنے کے لیے آتے ہیں تو اس وقت جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے چنانچہ اس وقت روح سن بھی لیتی ہے۔ اس طرح حدیث اور قرآن کی دونوں آیتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے کیونکہ قرآن سن کر فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے کفار کو مردوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور عدم افادہ عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔‘‘ بہرحال ان دو احادیث کے علاوہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ شرح الصدور میں چند ایسی مزید روایات بھی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں میں سماع کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی یہ روایات معتبر نہیں ہیں ۔ خصوصاً عقائد میں تو سرے سے ان کا کچھ بھی اعتبار نہیں ہے۔ کیونکہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کے رسائل کا دار و مدار چوتھے طبقہ کی کتب پر ہے اور ان کتابوں کی روایات عقائد و اعمال میں معتبر نہیں ہوتیں چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مایہ تصنیف شیخ جلال الدین سیوطی در رسائل و نوادر خود ہمیں کتابہا است و اشتغال باحادیث ایں کتب و استنباط احکام از انہا لا طائل می نمانید۔‘‘[2]
Flag Counter