Maktaba Wahhabi

175 - 242
((لِاَنَّہٗ یَقْبَلُ النِّیَابَۃَ لِاَنَّہٗ عِبَادَۃٌ مُرَکَّبَۃٌ مِنَ الْبَدَنِ وَ الْمَالِ فَاِنَّ الْعِبَادَۃَ ثَلَاثَۃُ اَنْوَاعٍ: مَالِیَۃٌ وَ بَدَنِیَّۃٌ وَ مُرَکَّبَۃٌ مِنْہُمَا فَالْعِبَادَۃُ الْمَالِیَۃُ کَالزَّکٰوۃِ تَصِحُّ بِہَا النِّیَابَۃُ مُطْلَقًا وَ الْمُرَکَّبَۃُ مِنْہُمَا کَالْحَجِّ اِنْ کَانَ نَفْلًا تَصِحُّ فِیْہَا النِّیَابَۃُ مُطْلَقًا وَ اِنْ کَانَ فَرَضًا لَا تَصِحُّ))[1] ’’اس طرح میت سے نماز ساقط نہیں ہوئی اور ایسے ہی روزے کا حکم ہے۔ ہاں اگر ورثاء خود نماز پڑھیں اور روزہ رکھیں اور اس کا ثواب میت کو بخش دیں تو حنفیہ کے نزدیک صحیح ہے کیونکہ آدمی اپنا عمل غیر کو ہبہ کر سکتا۔ عبادت تین قسم کی ہوتی ہے: مالی، بدنی اور مرکب۔ مالی عبادت مثلاً زکوٰۃ و غیر میں نیابت مطلقاً جائز ہے اور بدنی عبادت مثلاً نماز روزہ میں نیابت جائز نہیں ہے اور عبادت مرکب (مالی بدنی) مثلاً حج وغیرہ میں اگر نفل ہو تو نیابت جائز ہے اور فرض میں جائز نہیں ۔‘‘ علاوہ ازیں اسقاط کے ناجائز اور بے اصل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَ لٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ اَعْمَالِکُمْ))[2] ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا لیکن تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ بات اہمیت کی حامل ہے جو دل کی گہرائی سے نکلتی ہو اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اسقاط میں جب قرآن مجید پھرایا جاتا ہے تو دل سے نیت بخشنے کی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر چکر پورا نہ ہو اور درمیان میں سے کوئی شخص لے کر رفو چکر ہو جاتا ہے اور کہے کہ جب مجھے بخش دیا گیا ہے تو میری مرضی کہ میں یہ ثواب کسی کو بخشوں تو
Flag Counter