Maktaba Wahhabi

156 - 242
پیر صاحب کو اپنے انجام کا کوئی علم نہیں ۔ کیونکہ قبر میں سوائے اپنے نیک اعمال کے کوئی دوسری چیز کام نہیں آئے گی۔ صحیح بخاری میں سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ((فَاِنَّمَا یُظِلُّہٗ عَمَلُہٗ))[1] ’’میت کا نیک عمل ہی اس پر سایہ کرے گا۔‘‘ پیر صاحب کا یہ عمل خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں ، تین بیٹے اور آپ کی چہیتی بیوی خاتون جنت ام المومنین سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حمزہ اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وغیرھم جیسے جان نثار اور مخلص صحابہ رضی اللہ عنہم فوت ہوئے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کے سر پر اپنی دستار مبارکہ رکھی اور نہ کسی دوسرے فوت شدہ صحابی کے سر پر رکھی اور نہ کسی کو اپنا تہبند ہی پہنایا۔۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ اور آپ کا تہبند پیر صاحب کے عمامہ اور شلوار سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھے۔ لہٰذا پیر کا یہ فعل خود نمائی ہی کے زمرہ میں آتا ہے جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہرکیف پیر صاحب کا یہ فعل قرآن و حدیث کے سراسر خلاف ہے۔ (۲)..... زمین میں گڑھا کھود کر اس کے مغربی کنارہ کے نیچے لحد تیار کر کے اس میں میت کو دفن کرنا سنت ہے، جیسا کہ صحاح ستہ اور فقہ حنفی کی کتب میں صراحت ہے۔ ملاحظہ ہو: صحیح بخاری باب اللحد والشق، ج: ۱، ص: ۱۸۰ قبر لحد یا پھر قبر صندوقی (شق) ہونا چاہیے جو گڑھے کے وسط میں بنائی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَللَّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا)) ’’لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسروں کے لیے ہے۔‘‘
Flag Counter