Maktaba Wahhabi

138 - 242
’’جو چیز اس وقت دین نہ تھی وہ آج بھی دین نہیں ۔‘‘ امام موصوف کے ارشاد کی بنیاد اس حدیث شریف پرہے: ((عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنہا قَالَتْ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))[1] ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ اور ’’امرنا ہذا‘‘ سے امر دین اور شریعت مراد ہے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وَالْمُرَادَ بِہٖ اَمْرُ دِیْنٍ‘‘ (فتح الباری) یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ایسی اہم عبادت کی مسنون ہیئات کذائی میں تبدیلی کر کے اس کو خاص وقت اور خاص کیفیت (جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو) کے ساتھ ادا کرنے کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ناجائز قرار دیتے تھے۔ جیساکہ صحیحین میں ہے: ((عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ دَخَلْتُ اَنَا وَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ الْمَسْجِدَ فَاِذَا عَبْدُاللّٰہِ بْنَ عُمَرَ جَالِسٌ اِلٰی حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ الضُّحٰی فِی الْمَسْجِدِ فَسَأَلْنَاہُ فَقَالَ بِدْعَۃٌ))[2] ’’حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس تشریف فرما ہیں اور کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں ہم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ان لوگوں کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کو بدعت کہا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
Flag Counter