Maktaba Wahhabi

109 - 242
مفتی احمد یار گجراتی لکھتے ہیں کہ اگر یہ حدیث ضعیف بھی ہو تو پھر بھی فضائل اعمال میں معتبر ہے (ص ۸۶۳، جاء الحق) لیکن یہ جناب مفتی صاحب کی سراسر بھول ہے۔ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے یا نہیں ۔ اولاً یہ مسئلہ بجائے خود مختلف فیہ ہے۔ ثانیا ضعیف حدیث کے کئی درجے ہیں ، محدثین اور ائمہ دین کا اتفاق ہے کہ راوی متروک و کذاب ہو تو وہ نہ فضائل اعمال میں مقبول ہے اورنہ اس سے استشہاد جائز ہے۔ اس حدیث کا راوی چونکہ ابراہیم بن ابی حمید ہے جس کے متعلق امام ابو عروبہ فرماتے ہیں کہ: ((کَانَ یَضَعُ الْحَدِیْثَ))[1] یہ احادیث گھڑا کرتا تھا۔ لہٰذا ایسے راوی کی روایت فضائل اعمال میں پیش کرنا نری جہالت ہے۔ ثالثاً یہ حدیث دوسری مرفوع احادیث اور تعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی قابل استدلال نہیں ہے۔ سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُ الصَّمْتَ عِنْدَ ثَلَاثٍ عِنْدَ تَلَاوَۃِ الْقُرْاٰنِ وَعِنْدَ الزَّحْفِ وَعِنْدَ الْجَنَازَۃِ))[2] یعنی اللہ تعالیٰ نے تین موقعوں پر خاموشی کو پسند فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت، میدان جنگ میں اور جنازے کے ساتھ۔ سیّدنا قیس بن عباد سے منقول ہے: ((کَانَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَکْرَہُوْنَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ الْجَنَائِزِ))[3] ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنازہ کے ساتھ آواز بلند کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘ ایسے واضح دلائل کے باوجود جنازہ لے جاتے ہوئے بلند آواز سے کلمہ شہادت کا نعرہ لگانا، امور شریعت میں اضافہ نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟
Flag Counter