کرنے والا دین ہے ‘‘ ۔ نیز بھلائیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والوں کو دیکھ کر کچھ لوگوں کا بطورِ مذاق یہ کہنا : ’’ لیجئے جناب ! دیندار آگئے ‘‘۔اور اس طرح کی بے شمار رنج پہنچانے والی باتیں ہیں، جو ان منافقین کی باتوں سے کہیں زیادہ ٹھیس پہنچانے والی ہیں جن کی مذمت میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں ۔
۲)غیر صریح مذاق : یہ وہ سمندر ہے جس کا کنارا نہیں، جیسے : تلاوت قرآن، یا احادیث سنتے وقت، یا أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وقت، آنکھ سے، زبان نکال کر، ہونٹ پھیلا کر یا ہاتھ سے اشارہ کرنا ۔اور وہ تمام باتیں بھی اسی میں شامل ہیں جو بعض لوگ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ’’ اسلام قرون وسطیٰ کے لئے تو ٹھیک تھا لیکن بیسویں صدی کے لئے نہیں ۔‘‘ ’’ اسلام بچھڑا ہوا اور رجعت پسند مذہب ہے ‘‘۔ اور اسلامی حدود اور تعزیرات کے متعلق یہ کہنا : ’’ یہ سزائیں سنگدلانہ اور وحشیانہ ہیں ‘‘ طلاق اور تعدد ازواج کے جواز پر یہ کہنا : ’’ اسلام نے عورت اور اس کے حقوق پر ظلم کیا ہے ‘‘ بعض لوگوں کا یہ کہنا : ’’ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین سے فیصلہ کرنا، لوگوں کے لئے اسلامی احکام سے بہتر ہے ۔‘‘ اور اس شخص کو ’’ انتہاء پسند ‘‘ یا ’’ تفرقہ باز ‘‘ یا ’’ وہابی ‘‘ یا ’’ پانچویں مذہب کا ماننے والا‘‘کہنا جو توحید کی دعوت دیتا ہے اور قبروں اور درگاہوں کی عبادت کو برا سمجھتا ہے ۔
اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند، اور داڑھی رکھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہا جانا کہ : ’’ دین بالوں میں نہیں ہے ‘‘یہ اور اس طرح کی دیگر بے شرمی کی باتیں بھی إستہزاء اور مذاق میں شامل ہے ۔
یہ اور اس طرح کی تمام باتیں، دین اور دینداروں کے لئے گالی کے حکم میں ہیں، اور صحیح عقیدے کے ساتھ مذاق ہیں ۔
|