گمراہی میں بہت دور تک چلا جاتا ہے ۔
۳۔ کبھی اسکا اطلاق مخالفت کے لئے بھی ہوتا ہے، جس سے کفر لازم نہیں آتا، جیسے کہا جاتا ہے : ’’الفرق الضالۃ ‘‘ضالّۃ سے مراد یہاں مخالف فرقے ہیں ۔
۴۔ کبھی خطا اور غلطی کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا یہ قول قرآن مجید میں مذکور ہے : ﴿ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَاْ مِنَ الضَّالِّیْنَ ﴾ (الشعراء : 20)
ترجمہ :میں وہ غلطی نادانستگی میں کر بیٹھا تھا ۔
۵۔ کبھی اس کا اطلاق نسیان اور بھول پر بھی ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے : ﴿ اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدَاہُمَا الْاُخْرٰی ﴾ ( البقرۃ : 282)
ترجمہ :تاکہ ایک کے بھول جانے کی صورت میں دوسری اسے یاد دلائے ۔
۶۔ضلالت کا اطلاق غائب اور گم ہوجانے پر بھی ہوتا ہے ۔ اور اسی سے ’’ ضآلّۃ الإبل ‘‘کہا جاتا ہے، یعنی ’’ گم شدہ اونٹ ‘‘
۴۔ ارتداد اور اس کی اقسام اور اس کے احکام :
ارتداد، لغت میں رجوع اور پلٹنے کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ ﴾ ( المائدۃ :21)
ترجمہ :اور تم لوگ پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو ۔
شرعی اصطلاح میں ارتداد، اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرلینے کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَمَن یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَاُوْلٰئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ﴾ ( البقرۃ : 217)ترجمہ :اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے گا، اور پھر حالتِ کفر ہی میں مرجائے گا، تو اسکے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوجائیں گے، اور وہ لوگ جہنمی
|