اور ایک روایت میں ہے : ’’اپنے دل کی بات کو زبان پر لانا عظیم ترین گناہ سمجھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے شیطان کی ایک سازش کو وسوسہ میں بدل دیا ‘‘۔یعنی اس زبردست کراہت کے باوجود ان وسوسوں کا آنا، اور پھر اسکو دل سے زائل کرنا، ایمان کی کھلی علامت ہے ۔
نفاقِ اکبرمیں مبتلا لوگوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ﴾ (البقرۃ :10)ترجمہ : ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا، اور ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا، اس سبب سے کہ وہ جھوٹے ایمان کا اظہار کرتے تھے ۔
یعنی وہ باطنی طور پر اسلام کی طرف نہیں پلٹیں گے ۔ اورانکے متعلق اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّر َّ ۃً اَوْ مَرَّ تَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ﴾ ( التوبۃ : 126)کیا وہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہر سال ایک یا دو بار کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کئے جاتے ہیں، پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ عبرت حاصل کرتے ہیں ۔
شیخ الإسلام إمام إبن تیمیۃ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : ’’ بظاہر ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے، اس لئے کہ ان کی اندرونی حالت کا کسی کو علم نہیں ہے، اس لئے کہ ظاہرًا تو وہ ہمیشہ ہی اسلام کا اظہار کرتے ہیں ۔ ( مجموع الفتاویٰ : 28؍434۔435)
|