فرمایا: ’’تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا۔‘‘[1]
_________________________________________________
اصل متن :… ویشھدون بالجنۃ لمن شھد لہ رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم : کالعشرۃ، وثابت بن قیس بن شماس وغیرھم من الصحابۃ۔
ویقرون بما تواتر بہ النقل عن أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ وغیرہ من أن خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا: أبوبکر،ثم عمر، ویثلثون بعثمان، ویربعون بعلی رضی اللہ عنہم کما دلت علیہ الآثار وکما أجمع الصحابۃ علی تقدیم عثمان فی البیعۃ مع أن بعض أھل السنۃ کانوا قد اختلفوا فی عثمان وعلی رضی اللہ عنہما بعد اتفاقھم علی تقدیم أبی بکر و عمر۔ أیہما أفضل فقدم قوم عثمان وسکتوا و ربعوا بعلی وقدم قوم علیا وقوم توقفوا لکن استقر أمر أھل السنۃ علی تقدیم عثمان، ثم علی۔
ان کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں جن کے جتنی ہونے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے، جیسے عشرہ مبشرہ اور ثابت بن قیس بن شماس وغیرہ صحابہ۔
وہ اس متواتر بات کا بھی اقرار کرتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان اور چوتھے نمبر پر علی رضی اللہ عنہ ہیں ، جیسا کہ آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس بات پر صحابہ کا اجماع ہے کہ بیعت رضوان میں سب سے افضل و مقدم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ بعض اہل سنت کا اگرچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سب سے افضل ہیں مگر اس کے بعد ان کا حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہے کہ دونوں میں کون افضل ہے۔ چناں چہ بعض نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مقدم کیا اور پھر سکوت اختیار کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھے نمبر پر کیا۔ بعض نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقدم کیا اور بعض نے اس مسئلہ میں توقف کیا لیکن بہرحال اہل سنت کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر اجماع ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا درجہ بعدمیں ہے۔
|