میزان اور صراط وغیرہ سب کا انکار کرتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جملہ امور عقل کے نزدیک ثابت نہیں اور عقل ہی ان کے ہاں ’’حاکم اول‘‘ ہے کہ وہ ایسی کسی بات پر ایمان نہیں لاتے جو عقل کے طریق سے ثابت نہ ہو۔ اسی لیے وہ اس باب میں وارد تمام احادیث کا یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ سب اخبار احاد ہیں جو عقائد میں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ جب کہ آیاتِ قرآنیہ کی بے جا تاویل کر کے انہیں ان کے معانی سے پھیر دیتے ہیں ۔ چناں چہ یہ لوگ حدیث میں وارد ترکیب ’’بفتنۃ القبر‘‘ میں ’’با‘‘ کو ’’فی‘‘ کے معنی میں لے کر یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ وہ فتنہ جو قبر میں پیش آئے گا۔ ’’فتنہ‘‘ کا وضعی معنی ہے سونے کو میل کچیل اور کھوٹ وغیرہ سے صاف اور خالص کرنے کے لیے آگ میں ڈالنا، پھر بعد میں یہ لفظ اخبار اور امتحان کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ قبر کے عذاب اور اس کی نعمتوں پر رب تعالیٰ کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو آل فرعون کے بارے میں ہے:
﴿النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا﴾ (غافر: ۴۶)
’’آتش (جہنم) کہ صبح و شام اس پر پیش کیے جاتے ہیں ۔‘‘
_________________________________________________
اصل متن :… وتقوم القیامۃ التی أخبر اللّٰه بھا فی کتابہ وعلی لسان رسولہ وأجمع علیھا المسلمون، فیقوم الناس من قبورھم لرب العالمین حفاۃ عراۃ غرلا وتذنو منھم الشمس ویلجمھم العرق، فتنصب الموازین فتوزن بہا أعمال العباد۔
﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ﴾ (المؤمنون: ۱۰۲،۱۰۳) وتنشر الدواوین، وھی صحائف الأعمال۔ فآخذ کتابہ بیمینہ وآخذ کتابہ بشمالہ أومن وراء ظہرہ، کما قال سبحانہ وتعالیٰ: ﴿وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًاo اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا﴾ (الاسراء: ۱۳،۱۴) ویحاسب اللّٰه الخلائق ویخلو بعبدہ المؤمن فیقررہ بذنوبہ ، کما وصف ذلک في الکتاب والسنۃ ، وأما الکفار فلا یحاسبون محاسبۃ من توزن حسناتہ و سیئاتہ فإنہ لا حسنات لھم ولکن تعد أعمالہم فتحصی فیوقفون علیہا ویقررون بہا۔
اور جس قیامت کی رب تعالیٰ نے قرآن میں اور اپنے پیغمبر کی زبانی خبر دی ہے اور جس پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے، وہ قائم ہو گی۔ چناں چہ لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ اپنی قبروں سے اٹھ کر رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے اور سورج ان کے بے حد قریب آجائے گا اور وہ
|