سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’سب تعریفیں اس ذات کی ہیں جس کی صفت سمع نے سب آوازوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ تحقیق وہ جھگڑنے والی عورت (خولہ) خدمت رسالت میں حاضر ہو کر اپنی فریاد اور شکوہ و شکایت کر رہی تھی، جب کہ میں گھر کے ایک گوشے میں اس کی باتیں سن رہی تھی کہ رب تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴾ (المجادلۃ: ۱)[1]
دوسری آیت: یہ آیت خبیث یہودی فخاص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب حضرت صدیق اکبر نے اسے ایمان لے آنے کی دعوت دی تو وہ بارگاہ الٰہی میں گستاخی کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’اے ابوبکر! اللہ کی قسم! ہمیں کسی تنگدستی کی بنا پر اللہ کی احتیاج نہیں ، محتاج تو وہ ہمارا ہے، اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض نہ مانگتا۔‘‘[2]
تیسری آیت: اس آیت میں ’’اَمْ‘‘ ’’بَلٰ‘‘ اور ھمزہ استفہامیہ کے معنی میں ہے۔ اور یہ ’’اَمْ‘‘ منقطعہ[3] اور استفہام ’’انکاری‘‘ ہے۔ جو زجر و توبیخ کے معنی کو متضمن ہے۔ اور
آیت کا معنی یہ ہے ’’اَیْظن ھٰؤلاء …‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جو اپنی راز کی باتوں اور سرگوشیوں کو چھپا، چھپا کر کرتے ہیں ، یہ گمان رکھتے ہیں ہم انہیں سن نہیں پاتے بلکہ ہم انہیں خوب سنتے ہیں اور ہمارے اعمال لکھنے والے فرشتے ان کے سامنے موجود ہیں جو ان کی ہر کہی اور کی بات کو لکھ رہے ہیں ۔
|