ا: شکر سے مراد
ب: شکر کا صرف زبان کے ساتھ نہ ہونا
ج: [شکر کے عذابِ الٰہی سے بچانے والا ہونے] کے دلائل
ا: شکر سے مراد:
علمائے امت نے [شکر کے مقصود و مراد] کے متعلق بہت عمدہ گفتگو فرمائی ہے۔ ذیل میں ان میں سے پانچ کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
i: حافظ ابن رجب نے بعض سلف سے نقل کیا ہے:
’’اَلشُّکْرُ أَنْ لَّا یُسْتَعَانَ بِشَيْئٍ مِنَ النِّعَمِ عَلٰی مَعْصِیَّۃٍ۔‘‘[1]
’’شکر یہ ہے، کہ نعمتوں میں سے کسی بھی چیز سے نافرمانی میں مدد نہ لی جائے۔‘‘
ii: امام ابن ابی الدنیا نے مَخْلد بن حُسین سے روایت نقل کی ہے، کہ اُنہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ یُقَالُ: ’’اَلشُّکْرُ تَرْکُ الْمَعَاصِيْ۔‘‘[2]
کہا جاتا تھا: ’’شکر نافرمانیوں کا ترک کرنا ہے۔‘‘
iii: علامہ راغب اصفہانی رقم طراز ہیں:
اَلشُّکْرُ: ھُوَ الْاِمْتِلَائُ مِنْ ذِکْرِ الْمُنْعِمِ عَلَیْہِ۔
وَ الشُّکْرُ ثَلَاثَۃٌ أَضْرُبٍ:
شُکْرُ الْقَلْبِ: وَ ھُوَ تَصَوُّرُ النِّعْمَۃِ۔
وَ شُکْرُ اللِّسَانِ: وَ ہُوَ الثَّنَائُ عَلَی الْمُنْعِمِ۔
وَ شُکْرُ سَآئِرِ الْجَوَارِحِ: وَ ھُوَ مَکَافَأَۃُ النِّعْمَۃِ بِقَدْرِ
|