Maktaba Wahhabi

285 - 505
خوفناک (مصیبتوں) سے نہیں ڈرتا، اگرچہ پہاڑوں کی مانند ہوں۔‘‘] iv: شیخ سعدی کا بیان: ’’وَأَخْبَرَ أَنَّہٗ {مَعَ الصَّابِرِیْنَ}، أَيْ: مَعَ مَنْ کَانَ الصَّبْرُ لَہُمْ خُلُقًا وَصِفَۃً وَمَلَکَۃً بِمَعُوْنَتِہٖ وَتَوْفِیْقِہٖ وَتَسْدِیْدِہٖ، فَہَانَتْ عَلَیْہِمْ بِذٰلِکَ الْمَشَاقُ وَالْمَکَارِہُ، وَ سَہُلَ عَلَیْہِمْ کُلُّ عَظِیْمٍ ، وَزَالَتْ عَنْہُمْ کُلُّ صَعُوْبَۃٍ۔ وَہٰذِہٖ مَعِیَّۃٌ خَاصَّۃٌ تَقْتَضِيْ مُحَبَّتَہٗ وَمَعُوْنَتَہٗ وَنَصْرَہٗ وَقُرْبَہٗ۔ وَہٰذِہٖ مَنْقِبَۃٌ عَظِیْمَۃٌ لِلصَّابِرِیْنَ، فَلَوْ لَمْ یَکُنْ لِّلصَّابِرِیْنَ فَضِیْلَۃٌ إِلَّا أَنَّہُمْ فَازُوْا بِھٖذِہِ الْمَعِیَّۃِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، لَکَفٰی بِہَا فَضْلًا وَشَرَفًا‘‘۔[1] [’’اور اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے، کہ بے شک وہ [صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں] یعنی جن لوگوں کا [صبر کرنا] ہی اخلاق، صفت اور ملکہ ہو، تو (اللہ تعالیٰ) اپنی اعانت، توفیق اور راہنمائی کے ساتھ اُن کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اس طرح اُن پر کٹھن (معاملات) اور ناپسندیدہ (باتیں) ہلکی ہو جاتی ہیں، ہر بڑا (کام) اُن کے لیے آسان ہو جاتا ہے اور ہر دشواری اُن سے دُور ہو جاتی ہے۔ یہ [معیّت خاصہ] اللہ تعالیٰ کی محبت، اعانت، نصرت اور قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ (یعنی اس معیّت کے پانے والے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان نعمتوں سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں)۔ صبر کرنے والوں کے لیے یہ عظیم منقبت ہے۔ اگر صبر کرنے والوں کے لیے، اس فضیلت کے سوا کوئی اور بات نہ ہو، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس معیّت کو حاصل کر لیتے ہیں، تو یہ ہی شان و عظمت کے اعتبار سے بہت بڑی بات ہے۔‘‘]
Flag Counter