Maktaba Wahhabi

213 - 505
آمادہ کر لیں اور اس کے مقابلے کی خاطر تیار ہو جائیں اور اس کا استقبال اچھے صبر اور استقامت سے کریں، کیونکہ مصیبتوں کا یکایک آنا جو ان مردوں کے قدموں کو ڈگمگا دیتا ہے اور ان (مصیبتوں) کے لیے خود کو قبل از وقت تیار کرنا، ان کے زور کو کم کر دیتا ہے۔ iii: شیخ سعدی اس بات کی پیشگی خبر دینے کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَ مِنْہَا أَنَّہٗ أَخْبَرَہُمْ بِذٰلِکَ لِتَتَوَطَّنَ نُفُوْسُہُمْ عَلٰی وُقُوْعِ ذٰلِکَ ، وَ الصَّبْرِ عَلَیْہِ إِذَا وَقَعَ، لِأَنَّہُمْ قَدِ اسْتَعَدُّوْا لِوُقُوْعِہٖ، فَیُہَوِّنُ عَلَیْہِمْ حَمْلُہٗ، وَ تَخِفُّ عَلَیْہِمْ مَؤُوْنَتُہٗ، وَ یَلْجَؤُوْنَ إِلَی الصَّبْرِ وَ التَّقْوٰی۔‘‘[1] ’’ان میں سے ایک یہ ہے، کہ اُنہوں (یعنی اللہ تعالیٰ) نے اس بات سے اُنہیں آگاہ کیا، تاکہ اُن کے نفوس اِس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے (ذہنی طور پر) تیار ہو جائیں اور اِس کے واقع ہونے پر صبر کے لیے آمادہ ہو جائیں، کیونکہ جب وہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے (ذہنی طور پر) مستعد ہو جائیں گے، تو اُن کے لیے اِس کا برداشت کرنا معمول کی بات بن جائے گی، اُس کی مشقت کو گوارا کرنا ہلکا ہو جائے گا اور وہ صبر و تقویٰ کو اختیار کریں گے۔‘‘ ج: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خبر دی ہے، کہ انسان ہر جانب سے مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے اور وہ سب اُسی کا رُخ کرتی ہیں۔ اگر ایک مصیبت اس سے چوک جائے، تو دوسری اسے زک پہنچاتی ہے اور اگر ایک دوسری اسے نشانہ نہ بنائے، تو ایک اور اسے پہنچ جاتی ہے۔[2] گفتگو کا ماحاصل یہ ہے، کہ اللہ جل جلالہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبتوں کے نزول
Flag Counter