بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ﴾ ( آل عمران :39؍38 ) تر جمہ : میرے پروردگار ! مجھے اپنی جانب سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعائیں سننے والا ہے، فرشتوں نے انہیں پکارا اور وہ اس وقت محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، کہ اللہ تعالی آپ کویحیٰی نامی لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے، جو اللہ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا، اور (بنی اسرائیل کا ) سردار، نہایت پاک باز اور نبی ہوگا، نیکوں میں سے ہوگا۔
ان آیات سے جو ہدایات ہمیں ملیں وہ یہ ہیں :
1۔ اولادجب ماں کے پیٹ میں ہو اسی وقت سے اس کیلئے نیک تمنّائیں رکھنا چاہئے، جیسا کہ حنہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کے متعلق نذر مانی کہ وہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ کیلئے اور بیت المقدس کی خدمت کی خاطر وقف کردیں گی۔
2۔ ماں بھی بچے یا بچی کا نام رکھ سکتی ہے جیسا کہ حنّہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بچی کانام مریم رکھا، یہ صرف باپ کا ہی حق نہیں جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں معروف ہے۔
3۔ اولاد اور ان سے ہونے والی اولاد کے لئے دعا ئیں انکی پیدائش کے وقت سے ہی کرنامستحب ہے، اور اس کی اللہ تعالی نے چاہا تو بڑی تاثیر ہوگی، جیسا کہ حضرت حنہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی حضرت مریم علیہ السلام کی پیدائش کے فورا بعد ان کے لئے بھی اور ان سے ہونے والی اولاد کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم اور ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شیطان کے چھونے سے محفوظ رکھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : ’’ مَا مِنْ مَوْلُودٍ یُوْلَدُ
|