أُسْتَاذُہُ یَحْرِمُ مِنْ بَرَکَۃِ الْعِلْمِ " تر جمہ :"جس طالب علم سے اسکے استاذ کو تکلیف ہو، ایسا شخص علم کی برکت اور فائدے سے محروم رہے گا"۔ ( حوالہء مذکور:69)
عصری تعلیم اور اس کے نتائج
شاگردوں پر اساتذہ کی شفقت اور تلامذہ کا اپنے اساتذ ہ کیلئے احترام اورتعظیم اب دورِ رفتہ کی داستانیں اور خواب کی باتیں ہوچکی ہیں، انگریزی اور عصری تعلیم نے ماضی کی تمام عظیم روایات کی تار وپود اس طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے کہ نہ اب استاد، استاد رہا اور نہ شاگرد، شاگرد.عصری تعلیم نے تعلیم کو ایک نفع بخش تجارت بنادیا ہے جسمیں طالب علم ایک مخصوص رقم ادا کرکے کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم خریدتا ہے اور اساتذہ بھی طلبِ روزگار کے طور پر طلباء کے سامنے اپنا لیکچر پڑھ کر رخصت ہوجا تے ہیں۔
ہندوستان میں سب سے پہلے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کے لئے شعور بیدار کرنے والے سر سیّد احمد خان مرحوم بانی "مسلم یونیورسٹی علی گڑھ" تھے، آپ نے انتہائی نا مساعد حالات اور مخالفتوں کے طوفان میں"محمڈن کالج" کی بنیاد ڈالی، سر سیّد مرحوم کا خلوص مسلم قوم کے لئے کسی بھی شک وشبہ سے بالا تر ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ایک قوم کسی زبان کو سیکھنے کے لئے اٹھتی ہے تو وہ اس قوم کے عادات واخلاق سے متأثر ہوجاتی ہے جو اس زبان کی حامل ہے، اور اس طرح وہ تقدس جو اب تک اساتذہ و طلباء کے درمیان دینی نصابِ تعلیم کی وجہ سے قائم تھا وہ جلد ہی پارہ پارہ ہوگیا، خود سرسیّد مرحوم نے بھی اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرلیا۔ چنانچہ جناب ذاکر علی خان صاحب"روایاتِ علی گڈھ " میں لکھتے ہیں :
"جمیل خان صاحب فرماتے ہیں :"ایک شام ہم تمام مسجد کے عقب میں واقع
|