Maktaba Wahhabi

309 - 305
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے قانون اور انصاف کے معاملے میں سخت طبع حکمران بھی گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہوجاتے۔ خود فرماتے ہیں: " یَنْبَغِیْ لِلرَّجُلِ أَن یَّکُوْن فِیْ أَہْلِہِ کَالصَّبِیِّ، فَإِذَا کَانَ فِی الْقَوْمِ کَانَ رَجُلًا " ( تربیۃ الأولاد فی الإسلام : 93) آدمی کو اپنے گھر میں محبت اور نرمی میں بچے کی طرح ہونا چاہئے، جب لوگوں میں ہو تو مرد بن کر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : آپ1 گھر میں وہ تمام کام کرتے جو تم میں سے ایک عام آدمی کرتا ہے، کوئی چیز ایک جگہ سے اٹھاتے اور دوسری جگہ پر رکھتے، گھر کے امور میں اپنی بیویوں کی مدد فرماتے، کپڑے سل دیتے، گوشت کاٹ کر دیتے، گھر میں جھاڑو دیتے، اور خادم کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتے۔( طبرانی ) یہ وہ مبنی بر انصاف حقوق ہیں جنہیں اسلام نے میاں بیوی دونوں پر عائد کئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے میں ان حقوق پر کما حقہ عمل ہو تو اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاشرہ انسانیت کا سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار ٗ محبت بھرا اور ہنستا وکھیلتا معاشرہ ہوگا۔ اس معاشرے میں دشمنی، نفرت، حقارت بیوی پر ظلم و زیادتی،گالی گلوچ، الزامات،تہمتوں، طلاق اور خلع جیسی مکروہ چیزوں کوہرگز کوئی جگہ نہیں ملے گی باپ کی بد سلوکی بچوں کے انحراف میں باپ کی بد سلوکی کا بھی بڑا عمل دخل ہے، اگر باپ بُری عادتوں مثلًا شراب خوری، قمار بازی، جھگڑالو، بد زبان اور بات بات پر بچوں کو بُری طرح پیٹنے والا، انہیں مختلف ذریعوں سے ذلیل کرنے والا، ان کا مذاق اڑانے والا
Flag Counter