لڑکی کی پیدائش پر افسوس کرنا
انسانوں نے ہمیشہ صنفِ نازک پر ظلم کیا، یہودیوں نے عورت کو گناہ کی ماں، بدی کی جڑ اور انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک قرار دیا تو عیسائیوں نے اسے انسان تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا، اور عورت کو انسان نما ایک چڑیل قرار دیا، ہندو مت میں لڑکی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا، شادی کے بعد بد قسمتی سے اگر اس کا شوہر انتقال کرجاتا تو اسے ان دونوں راہوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی ہی نہیں رہ جاتا : 1) یا تو وہ اپنے لئے موت سے بدتر زندگی کا انتخاب کرلے۔2) یا شوہر کی چتا کے ساتھ ہی زندہ آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہوجائے۔ عرب میں بچی کی پیدائش کو ذلّت سمجھا جاتا اور جس کے گھر لڑکی پیدا ہوتی وہ لوگوں سے نظریں بچا بچا کر پھرتا، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے :
﴿ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْ ٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ط اَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ اَلَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ ﴾ ( النحل : رضی اللّٰہ عنہ 8؍59)
ترجمہ :جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے، اور وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (کہ اس کے بعد کیا منہ دکھائے ) (منصوبے بناتا ہے کہ ) اس بیٹی کو ذلّت کے ساتھ لئے رہے یا زمین میں دبا دے ( زندہ در گور کردے ) یہ لوگ کیا ہی بُرے فیصلے کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں نو مولود بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا اور اس پر فخر کیا جاتا تھا،
|