ملک کے اسکے ہم سایہ ممالک سے تعلقات شاید ہی اچھے ہوں۔ایسے ماحول میں والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم دیں، انہیں پڑوسیوں کی تعظیم وتکریم اور انکے ساتھ حُسنِ سلوک کی عملی تربیت دیں۔
مساکین کے حقوق
فقراء اور مساکین ہر معاشرے کا تقریبا لازمی جز وہیں، یہ وہ غریب اور محتاج لوگ ہیں جو اپنی ضرورت کے مطابق کمائی نہیں کرسکتے، جسکی وجہ سے دوسروں کی امداد کے محتاج ہوتے ہیں۔ اسلام نے جہاںمساکین کو عزّتِ نفس کا سبق دیا، وہیں اغنیاء اور مال داروں کو زکاۃ، خیرات، صدقات دینے اور غرباء کا حق ادا کرنے کی تلقین کی۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء ومساکین کو کسبِ معاش کے لئے سخت محنت اور کامل جد وجہد کرنے کا حکم دیااور ہاتھ کے ہنر سے روزی کمانے کو سب سے بہترین روزی قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : " مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَن یَّأکُلَ مِنْ عَمْلِ یَدِہِ، وَأَنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاؤُدَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ یَأکُلُ مِنْ عَمْلِ یَدِہِ " ( بخاری:2072) کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر روزی نہیں کھائی ہے، اور اﷲ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے۔ جب کوئی چارہ کار باقی نہ رہ جائے تو حکم دیا کہ جنگل جاکر لکڑیاں ہی کاٹ لاؤ اور اس سے حلال لقمے کھاؤ، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :" لَأَن یَّأخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَہُ ثُمَّ یَأتِیَ الْجَبَلَ، فَیَأتِیَ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبٍ عَلٰی ظَہْرِہِ فَیَبِیْعَہَا فَیَکُفَّ اللّٰہُ بِہَا وَجْہَہُ، خَیْرٌ لَّہُ مِنْ أَن یَّسْأَلَ النَّاسَ، أَعْطَوْہُ أَوْ مَنَعُوْہُ " (بخاری:1471 ) ترجمہ : تم میں سے کوئی اپنی رسیاں لے کر پہاڑ پر
|