نظر رکھیں، بالخصوص انہیں موبائل فون اور اکیلے ڈرائیونگ وغیرہ کی سہولت ہر گز فراہم نہ کریں،ٹیوشن کیلئے کسی لیڈی ٹیوٹر کا بندوبست کریں، اگر بد قسمتی سے اس کا بندوبست نہ ہو تو یا تو ٹیوشن ہی ختم کردیں یا بدرجہ مجبوری مرد ٹیوٹر ہی رکھنا پڑے تو گھر کے کسی ذمہ دار شخص کی نگرانی میںرکھیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ تنہائی میں رسم وراہ بڑھا لیں،پھر سارے خاندان کیلئے ذلّت ورُسوائی کا ایک انمٹ داغ لگ جائے، خوشحال خاندان میں سینکڑوں ایسے واقعات والدین کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔
عربی مدارس اور ان کا کردار
ساری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص کالج اور یونیور سٹی کا جو ماحول ہے اس سے ہر ذی ہوش انسان واقف ہے، مسلمانوں کیلئے مخصوص کوئی یونیورسٹی نہیںجس میں مسلمان اپنی طرزِ معاشرت، دین اور ثقافت پر عمل کرتے ہوئے تعلیم حاصل کریں،وہ دو چاریونیورسٹیاں جو اقلیتوں یا مسلمانوں کیلئے مخصوص تھیں، حکومت کی نظر ِ کرم سے انکا اقلیتی کردار مدّت پہلے ہی ختم کردیا گیا ہے، ایسے حالات میں عربی مدارس غیر سرکاری طور پر وہی خدمت انجام دے رہے ہیں جو مسلم دورِ حکومت میں سرکاری مدارس دیاتھے۔
اﷲ جزائے خیر دے ان علمائے کرام کو جنہوں نے انگریزوں کے عہد میں ہی یہ اندازہ لگالیا تھا کہ مسلمان اپنے دین وایمان اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کیلئے خود اپنے ہی وسائل سے دینی مدارس قائم کریں، تاکہ ہندوستان میں مسلمان اپنا مذہبی تشخّص باقی رکھتے ہوئے اپنے دین کی حفاظت کریں۔اس احساس نے ہندوستانی مسلمانوں کو سینکڑوں اسلامی مدارس قائم کرنے پر مجبور کیا، جسمیں ہزاروں لڑکے دینی تعلیم حاصل کرکے مسلمانوں کی مذہبی پیشوائی انجام دے رہے ہیں، مزید خوش آئند بات یہ ہے
|