تعظیم وتوقیر سنّتِ نبوی سے ثابت ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :"جو ہمارے بزرگ کی تعظیم نہیں کرتا وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے"اس لئے کہ عالم بمنزلہء والد کے ہے اور اس کی تعظیم خود علم کی تعظیم ہے".
استاد کی بد دعا
استاذ کی بد دعا بلکہ اندیشہ بھی طالب علم کی زندگی کو برباد کردیتا ہے خطیب الإسلام مولانا عبد الرؤف صاحب جھنڈا نگری رحمہ اﷲاپنی مشہور کتاب"العلم والعلماء"میں لکھتے ہیں :" سلطان محمد خان پادری اپنے رسالہ" میں مسیحی کیوں ہوا ؟" میں ضمنی طور پر ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ"میں ابتدا ہی سے تحقیق کی طلب میں تھا، چنانچہ میں برابر انجیل وغیرہ کا مطالعہ کرتا رہا، اس وقت میں مدرسہ فتح پوری میں پڑھتا تھا، ایک رات میرے کابلی استاذ ٹہلتے ٹہلتے میرے کمرے میں آئے اور فارسی زبان میں کہا " ترسم کہ عیسائی نہ شوی "مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم عیسائی نہ ہوجاؤ، میں نے فارسی ہی میں جواب دیا کہ آپ ایسا کیوں کہتے ہیں، میری طرف ایسی نسبت نہ کیجئے"لیکن چند سال بعد اس تجربہ کار استاد کا مقولہ حرف بحرف سچّا ثابت ہوا کیونکہ وہ عیسائی ہوگئے۔
شمس الأئمّہ حلوائی رحمہ اللہ کسی ضرورت سے بخارا سے نکل کر بعض دیہات میں گئے ہوئے تھے، آپکے تمام تلامذہ نے آکر آپ سے ملاقات کی، مگر قاضی ابوبکر نہ آسکے تو جس وقت ان سے شمس الأئمّہ حلوائی رحمہ اللہ کی ملاقات ہوئی تو پوچھا :" تم کیوں نہیں آئے "کہا :"میں والدہ ماجدہ کی خدمت میں مشغول تھا اسلئے نہ آسکا۔" تو فرمایا : "دیکھ ! تجھے عمر تو بہت دی جائے گی، مگر درس کی رونق سے محروم رہے گا " چنانچہ ایسا ہی ہواانہیں کبھی درس دینے کا اتفاق نہ ہوا۔ اسی وجہ سے علماء نے کہا ہے : "مَنْ تَأَذَّی مِنْہُ
|