ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں :1) والد کی دعا ( اولاد کے حق میں ) 2) مسافر کی دعا 3) مظلوم کی بد دعا۔
4۔عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہاقالت : أَتَی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رَجُلٌ وَمَعَہُ شَیْخٌ، فَقَالَ لَہُ : یَا ہٰذَا ! مَنْ ہٰذَا الَّذِیْ مَعَکَ ؟ قَالَ أَبِیْ، قَالَ : فَلَا تَمْشِ أَمَامَہُ، وَلَا تَجْلِسْ قَبْلَہُ وَلَا تَدْعُہُ بِإِسْمِہ وَلَا تَسُبُّ لَہُ۔(مجمع الزوائد ج : 8 ) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں : ایک شخص رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اسکے ساتھ ایک بوڑھا شخص تھا، آپ1 نے اس سے پوچھا : یا فلان ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اس نے کہا : یہ میرے والد ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان سے آگے نہ چلا کرو، ان سے پہلے نہ بیٹھا کرو، انہیں نام لیکر نہ بلاؤ اور انہیں لعن طعن نہ کیا کرو۔
اسلاف کا اپنے آ باء کے ساتھ حُسن سلوک
1۔عن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال : کَانَ تَحْتِیْ إِمْرَأَۃٌ أُحِبُّہَا وَکَانَ عُمَرُ یَکْرَہُہَا،فَقَالَ لِیْ : طَلِّقْہَا، فَأَبَیْتُ، فَأَتَی عُمَرُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہُ، فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : طَلِّقْہَا۔ ( ترمذی:1189) ترجمہ : عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :میری زوجیت میں ایک عورت تھی جس سے میں بے حد پیار کرتا تھا، میرے باپ حضرت عمررضی اللہ عنہ اس سے نفرت کرتے تھے، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس عورت کو طلاق دیدوں، لیکن میں نے انکار کردیا، انہوں نے اس بات کا تذکرہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ 1 نے بھی مجھے اس عورت کو طلاق دینے کا مشورہ دیا۔
2۔عن أبی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ أَنَّ رَجُلًا أَتَاہُ فَقَالَ : إِنَّ أَبِیْ لَمْ یَزَلْ بِیْ
|