Maktaba Wahhabi

277 - 305
نے اپنے ایک بچے کو بوسیدہ لباس پہنے دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، بیٹے نے پوچھا :" مَا یُبْکِیْکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؟ امیر المومنین ! یہ آنسو کیوں ؟ فرمایا : "یَا بُنَيَّ ! اَخْشٰی أَن یَّنْکَسِرَ قَلْبُکَ إِذَا رَآکَ الصِّبْیَانُ بِہٰذَا الثَّوْبِ الْخَلَق"بیٹے ! اسلئے کہ آج بچے تمہیں اس بوسیدہ لباس میں دیکھیں تو شاید تمہارا دل ٹوٹ جائے"۔ بچے نے جواب دیا :" یا أمیر المؤمنین ! إِنَّمَا یَنْکَسِرُ قَلْبُ مَنْ اَعْدَمَہُ اللّٰہُ رِضَاہُ، أَوْ عَقَّ أُمَّہُ وَأَبَاہُ، وَإِنِّیْ لَأَرْجُوْ أَن یَّکُوْنَ اللّٰہُ تَعَالٰی رَاضِیًا عَنِّیْ بِرِضَاکَ"ترجمہ : ابّا جان ! دل تو اسکا ٹوٹنا چاہئے جسے اﷲ نے اپنی رضا سے محروم کر رکھا ہے یا جو اپنے ماں باپ کا نافرمان ہے اور مجھے امید ہے کہ آپکے مجھ سے خوش ہونے کے سبب اﷲ تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوگا، یہ سنکر آپ نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔( تربیۃ الأولاد فی الإسلام : 234 ) فضول خرچی بچوں کے چور اور مجرم بننے کا دوسرا سبب ماں باپ کا بے حد لاڈ اور پیار اور انہیں ضرورت سے زیادہ جیب خرچ دینا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد غلط عادات کا شکار بن جاتی ہے، ان کی اسراف اور فضول خرچی کی بنا پر دیگر آوارہ لڑکے ان کے قریبی ساتھی بن جاتے ہیں، وہ انہیں برے اطوار کا عادی بنا دیتے ہیں۔ ان میں اُ منگوں، اور ارمانوں کا ایک سمندر ٹھاٹیں مارنے لگتا ہے، ان کی خواہشات کو پر لگ جاتے ہیں، ایسے بچے جو فضولیات کے عادی بن جاتے ہیں، جب انہیں اپنی فضول خرچیوں کے لئے پیسے نہیں ملتے تو وہ چوری پر اتر آتے ہیں، اور نئی نئی چیزیں چُرا کر اپنے والدین کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ انہیں
Flag Counter