فلاں دوست نے یہ ہدیہ دیا ہے، یا یہ چیز فلاں جگہ گری ہوئی ملی۔ ماں باپ اس آرزو کے ساتھ یہ" ہدیے اور تحفے" قبول کرلیتے ہیں کہ اﷲ کرے کہ ہدیوں کا یہ سنہری دور ہمارے لال پر ہمیشہ سدا بہار رہے۔ لیکن ان کی یہ خوش گمانیاں اس وقت خاک میں مل جاتی ہیں جب انہیں کسی پولیس اسٹیشن سے یہ خبر ملتی ہے کہ ان کا لال پولیس حوالات میں"سرکاری مہمان"بنا ہوا ہے، اس وقت وہ اپنا سر پیٹ لیتے ہیں
والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو فضول خرچی سے محفوظ رکھنے کے لئے خود فضولیات سے دور رہیں، کیونکہ اسراف وتبذیر سے تنگی پیدا ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنْقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَحْسُوْرًا﴾( بنی اسرائیل : 29) ترجمہ : "تم اپنا ہاتھ(بخیلی سے ) اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی ( فضول خرچی سے )اسے بالکل ہی کھول دو کہ پھرلوگوں کی ملامت کے مستحق ہوکر عاجز اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ"۔
ان آیات کے تفسیر کرتے ہوئے برّ صغیر کے مشہور محقق اور عالم دین حافظ صلاح الدین یوسف صاحب فرماتے ہیں :" ان آیات میں انفاق کا ادب بیان کیا جارہا ہے کہ انسان نہ بخل کرے کہ اپنے اہل وعیال کی ضروریات پر بھی نہ خرچ کر ے اور نہ فضول خرچی پر اتر آئے کہ گنجائش دیکھے بغیر ہی بے دریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان قابل ملامت ومذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں تھکا ہارا اور پچھتانے والا۔ محسور، اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا ہو، فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہوکر بیٹھ جاتا ہے”۔
ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا
|