یَمْنَحُوْنَکَ وُدَّہُمْ، وَیَحْبُوْنَکَ جُھْدَہُمْ، وَلَا تَکُنْ عَلِیْہِمْ ثَقِیْلًا فَیَمُلُّوْا حَیَاتَکَ وَیَتَمَنَّوْا وَفَاتَکَ"( تربیۃ الأولاد فی الإسلام : 1؍101)
یعنی" اولاد ہمارے دل کے پھل ہیں، اور ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں، اور ہم ان کیلئے نرم زمین اور سایہ فگن آسمان ہیں، اگر وہ کچھ طلب کریں تو آپ انہیں عطا کریں، اگر وہ ناراض ہوجائیں تو آپ انہیں راضی کریں، پھر وہ آپ پر اپنی محبت لٹائیں گے اور اپنی محنتوں کا پھل آپ کو پیش کریں گے، آپ ان پر بوجھ نہ بنیں اس سے وہ آپ کی زندگی سے تنگ آجائیں گے اور آپ کے مرنے کی آرزو کریں گے "۔
خاتمہ
اس بات سے ہر خاص وعام واقف ہے کہ بچے قوم، ملّت اورملک کے مستقبل ہیں یہ وہ بیج ہیں جنہیں اگر زرخیز زمین میں بویا جائے، پھر اس کو تقویٰ اور ایمان کے پانی سے سیراب کیا جائے تو ہمیشہ اچھا پھل دیں گے۔ اگر بچوں کی تربیت کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ تین ماحول ایسے ہیں جو انہیں اچھا یا بُرا بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اور وہ ہیں : 1۔ گھر 2۔ تربیت گاہ 3۔ معاشرہ۔
ان تینوں اہم تربیتی ماحول کا پاکیزہ ہونا فرد کے اخلاق وکردار کی بھلائی کا ضامن ہے اور ان تینوں کا بُرا اور بگڑا ہوا ہونا فرد کے بگاڑ اور فساد کیلئے کافی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کو انسانیت کی فلاح و کامیابی کیلئے نازل فرمایا ہے، اسی لئے اس نے تربیت کے ان تینوں اہم مصادر کو ٹھیک رکھنے کے لئے ضروری ہدایات دی ہیں :
1۔ گھر کے متعلق فرمایا : " مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ"( بخاری:1359مسلم: 2658)
|