اولاد کے متعلق باپ کی ذمّہ داریاں
اولاد کی تربیت میں باپ کی سب سے اہم ذمّہ داری ہے، اس لئے کہ باپ سے فطرۃً اولاد ڈرتی اور لحاظ کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :"کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ وَالْأَ مِیْرُ رَاعٍ وَمَسْئُوْلٌ عَلٰی رَعَیَّتِہ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَھْلِ بَیْتِہِ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہِ،فَکُلُّکُم رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہِ"(مسلم:4828) تر جمہ : تم میں سے ہر ایک ذمّہ دار ہے اور اپنی ذمّہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا، امیر اپنی رعیت کا، مرد اپنے اہل وعیال کا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمّہ دار ہے، اس طرح تم میں سے ہر شخص ذمّہ دار ہے اور اپنی ذمّہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کی دینی وایمانی تربیت باپ کی ذمّہ داری ہے اور اس تعلق سے وہ اللہ کے پاس جواب دہ ہے۔
عن أبی موسی الأشعری رضی اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال :"مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدْبٍ حَسَنٍ " (ترمذی1952: )
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے زیادہ کوئی بہترین عطیہ نہیں دیا "۔
عن إبن عباس رضی اللّٰہ عنہما عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَنَّہُ قَالَ :" أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدْبَہُمْ " (إبن ماجہ 3671:)
|