Maktaba Wahhabi

249 - 305
جائے، وہاں سے لکڑیوں کا گٹّھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے پھر فروخت کرے اور اسکے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ اسکے چہرے کو ذلیل ہونے سے بچائے رکھے، تو یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، چاہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ نیز انہیں حکم دیا کہ اپنی حاجات کو بجائے انسانوں کے رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کریں : " مَنْ أَصَابَتْہُ فَاقَۃٌ فَأَنْزَلَہَا بِالنَّاسِ لَمْ تَسُدَّ فَاقَتَہُ، وَمَنْ أَنْزَلَہَا بِاللّٰہِ فَیُوْشَکُ اللّٰہُ لَہُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ "( أبوداؤد 1647: ) جسے فقر وفاقہ لاحق ہوگیا اور اس نے اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا تو اس کا فاقہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اور جس نے اپنے فاقہ کو اﷲ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے دیر یا سویر رزق عطا فرمائے گا۔ کیونکہ بقولِ اکبر الٰہ آبادی : رب سے مانگ لے، جو مانگنا ہو، اے اکبر ! یہی وہ در ہے جہاں ذلّت نہیں سوال کے بعد جو فقراء اپنی محتاجی دور کرنے کیلئے بھیک مانگنے پر اتر آتے ہیں انہیں اس مذموم فعل سے باز رکھنے کی کوشش کی : " اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، وَالْیَدُ الْعُلْیَا ہِیَ الْمُنْفِقَۃُ، وَالسُّفْلٰی ہِیَ السَّائِلَۃ"( بخاری:1472) اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے، اونچے سے مراد دینے والا اور نیچے سے مراد مانگنے والا ہاتھ ہے۔ جن لوگوں نے گداگری کو بطورِ پیشہ اختیار کیا ہے انہیں آخرت میں سخت عذاب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا : " مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَکَثُّرًا فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرًا فَلْیَسْتَقِلْ أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ " ( مسلم 2446:) جو لوگوں سے اپنے مال کو زیادہ کرنے کیلئے مانگتا ہے، وہ اپنے لئے انگارے مانگتا ہے، ( اب اسکی مرضی ہے ) چاہے زیادہ مانگے یا کم۔ بقولِ شاعر :
Flag Counter