ممکن ہے ہتھیلی پر انگارہ کوئی رکھ دے
بھولے سے بھی مت مانگو خیرات اندھیرے میں
امیروں پر زکاۃ کو فرض کیا اور اس میں سب سے پہلا حق فقراء اورمساکین کا رکھا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّمَا الصَّدْقَاتُ لِلْفُقْرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ﴾ (توبہ: 60 ) نیز کئی طرح کے کفّاروں مثلًا : ظہار، قسم توڑنے، حالتِ روزہ میں قصدًا جماع وہم بستری وغیرہ میں مساکین کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑا پہنانا فرض کیا۔
نیز نیک لوگوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ﴾ ( دہر :8 ) ترجمہ :"کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں”۔
یہی وہ روشن تعلیمات تھیں جن کی وجہ سے اسلام نے مالدار طبقہ کے دلوں سے مال کی محبت کو کم کرکے ان میں ایثار وقربانی اور فقراء ومساکین اور محتاجوں کے لئے نرم دلی اور محبت کے جذبات پیدا کئے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ سے پہلے اور آپ کے بعد سینکڑوں مسلمانوں نے بھی ہجرت کی، یہ لوگ اپنی تجارتوں سے ہاتھ دھو کر، تہی دست ہوکر مدینہ منورہ پہنچے تھے، لیکن مدینہ کے انصار نے ان کے ساتھ ایثار واخوّت کا وہ مظاہرہ کیا جس سے بھی روشن مثالیں ایثار وخلوص کی تاریخ میں نہیں ملتیں، انہوں نے نہ صرف اپنے مال دئے، گھروں کو دو حصّوں میں بانٹ دیا، اپنے کھیت اور نخلستانوں کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی :" إِقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِیْلَ، قَالَ :لَا! فَقَالُوْا تَکْفُوْنَنَا الْمَؤُوْنَۃَ وَنُشْرِکُکُمْ فِی الثَّمْرَۃِ۔ قَالُوْا :
|