Maktaba Wahhabi

267 - 305
کرکٹ گراونڈ میں حسبِ معمول کرکٹ کھیلنے میں ایسے مصروف تھے کہ مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا لیکن اس کے باوجود ہوسٹل کا رُخ کرنے کے، ہم کھیل میں مدہوش رہے۔ اتنے میں نظر پڑی تو دیکھا حضرت سرسیّد خراماں خراماں مغرب کی نماز کے لئے مسجد کی طرف آرہے ہیں۔یہ دیکھ کر گھبراہٹ میں اور کچھ نہ سُوجھا تو کپتان صاحب نے کہا "بھائیو !صفیں باندھ لو اور نماز کے لئے کھڑے ہوجاؤ تاکہ یہ خطرہ ٹل جائے " چنانچہ فورًا ہی کپتان صاحب کی امامت میں سب کھلاڑی مقتدی بن کر نمازِ باجماعت میں مصروف ہوگئے، رکوع ہواسجدہ کیا جو کچھ زیادہ طول پکڑ گیا، لیکن بجائے"اﷲ اکبر" کہنے کے سجدے میں سر رکھے رکھے امام صاحب نے بآوازِ بلند دریافت کیا :" بھائیو کیا بُڈھّا چلا گیا ؟" مقتدیوں کی طرف سے جواب نہ آنے پر امام صاحب نے سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھتے ہیں کہ سجدہ ریز مقتدیوں میں بڈھّا بھی شامل ہے، لیکن بے باکی کے ایسے مظاہرے کے بعد بھی بابائے ملّت نے مشفقانہ عفو ودرگذر سے کام لے کر مسجد کی راہ لی۔ ( روایاتِ علی گڈھ : ص 10 ) سر سیّد مرحوم کے زمانے میں بے باکی کی یہ ابتداء تھی،اور آج وہی"مسلم یونیور سٹی " سیاست بازی، علاقائی کشمکش اور پروفیسروں اور غیر سماجی عناصر کی آپسی چپقلش کی نذر ہو کر لڑائی اور جھگڑے کا میدان بن چکی ہے، آئے دن کی ہڑتالوں نے تعلیم کا جنازہ نکال دیا ہے، اور یہی حال ہندوستان کی باقی یونیورسٹیوں کا ہے۔ موجودہ دور میں عصری مدارس میں اساتذہ کا ادب و احترام خواب کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں، یہاں تو اساتذہ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو طلباء کے ہاتھوں پٹنے سے محفوظ رکھیں، کسی استاد کا طلباء کے شر سے محفوظ ہوجانا ہی اس کے عزّت
Flag Counter