ووقار کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ نہ یہاں ابن فرّاء نحوی جیسے استاد ہیں نہ مامون الرشید کے شہزادوں جیسے شاگرد، نہ ملّاجیون جیسے اساتذہ ہیں نہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے شاگرد۔ یہاں اساتذہ وطلباء باروں میں بیٹھے شراب کے جام چھلکاتے ہوئے ملیں گے، طلباء کے غول اپنے ہی پروفیسر کی پٹائی کرتے ہوئے بلکہ اپنی ہی لیڈی پروفیسر کی آبرو ریزی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ غرضیکہ موجودہ کالج اور یونیورسٹیاں انسانیت کے مذبح خانے بن چکے ہیں جہاں بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکر شریف انسان بننے کے بجائے،جرائم پیشہ، گُستاخ اور خوبیٔ کردار سے کورے ہوکر نکلتے ہیں( إلاّ ما شاء اللّٰہ ) یہاں علم اخلاق کے لئے نہیں بلکہ ملازمت کے لئے پڑھایا جاتا ہے اور جو فارغ التحصیل ہورہے ہیں ان کی نظر"پلیٹ اور پاکٹ" کے علاوہ اور کسی چیز پر نہیں، کتنے ایسے بچے ہیں جب انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرلی اور کچھ کمانے کھانے کے لائق ہوئے تو اپنے والدین کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا، بلکہ ایک صاحب سے جب ان کے والد محترم کے متعلق دریافت کیا گیا کہ :Who is He ? یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے بڑی ہی بے شرمی سے جواب دیا تھا کہ : This Is My Butler " یہ میرے باورچی ہیں "
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر انگریزی پڑھا لکھا شخص ایسا ہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عصری سکول وکالج بچوں کی تعمیر وترقّی سے زیادہ تخریب و بگاڑ میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں، اس لئے والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو گھر میں ہی دین اور اخلاق کی بہترین تعلیم دیں، ان کے دلوں میں اساتذہ کی تعظیم، انسانیت کا احترام، اسلام کی حقّانیت اور ایمان کی محبت اس طرح راسخ کردیں کہ کسی بھی موڑ
|