نہ ہو، جسم پر داغ اور نشان چھوڑنے والی نہ ہو، تکلیف پہنچانے والی نہ ہو، نہ ہی سینہ پیٹ اور چہرہ پر مارا جائے، نہ اس میں زبردست سوٹے، ڈنڈے مستعمل ہوں،بلکہ فقہاء کرام کے اقوال کے مطابق یہ ضرب مسواک وغیرہ جیسی کسی لکڑی سے ہو۔
عورت کو مارنا کسی بھی مہذب معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کسی خادم یا عورت کو نہیں مارا : "مَاضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شَیْئًا قَطُّ بِیَدِہِ، وَلَا امْرَأَۃً وَلَاخَادِمًا، إِلاَّ أَن یُّجَاہِدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ " (مسلم :1795 ) یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے جہاد فی سبیل اﷲ کے اپنی زندگی میں نہ کسی عورت کو مارا، نہ کسی خادم کو اور نہ ہی انسان جانور سمیت کسی چیز کو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی پٹائی سے یہ کہتے ہوئے عار دلائی کہ :
" یَعْمِدُ أَحْدُکُمْ فَیَجْلِدُ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ، فَلَعَلَّہُ یُضَاجِعُہَا مِنْ آخِرِ یَوْمِہِ " ( بخاری :4942 ) ترجمہ : تم میں سے کوئی شخص اٹھتا ہے اور اپنی بیوی کی اس طرح بے تحاشا مارتاہے جس طرح کہ غلام کو مارا جاتا ہے، ( اسے کم از کم یہ تو سوچنا چاہئے کہ ) شاید وہ اسی دن کے آخر میں اس سے ہم بستری کرے۔
4۔ طلاق کے وقوع سے قبل شوہر اور بیوی کی جانب سے چند عقلمند لوگ جمع ہوں اور وہ ان اختلافات کا جائزہ لیکر اس کا حل تلاش کریں جو زن وشو کے درمیان باعث نزاع ہیں، تاکہ ان کی اس آخری کوشش سے تلخیاں ختم ہوں اور زندگی محبت کی ڈگر پر پھر سے رواں دواں ہوجائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَاللّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِع ِوَاضْرِبُوْہُنَّ ج فَاِنْ
|