ساتھ حقیقی باپ کو بھی دھکّے دے کر باہر کرکے گھر پر قبضہ کرلیں گے۔اور دونوں حالتوں میں اولاد پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
اسی لئے اسلام نے یتیموں کی دل جوئی اور خدمت کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہر مسلمان پر فرض کیا ہے، بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ ہمارے پیغمبر سید الأولین والآخرین حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم، پیدا ہونے سے پہلے ہی یتیم ہوچکے تھے، چھ سال کی عمر میں والدہ محترمہ بھی وفات پاگئیں، اسی لئے قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر یتیموں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا حکم دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ ٭ وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ ﴾( ضحیٰ :9۔10 ) ترجمہ : لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو اور مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔ یتیم کے ساتھ ناروا سلوک کو کافروں کی علامت قرار دیا گیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ٭ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ﴾ (ماعون : 1۔2 ) ترجمہ :کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت ( کی جزا وسزا ) کو جھٹلاتا ہے، وہی تو ہے جو یتیم کو دھکّے دیتا ہے۔ جو لوگ یتیم کی عزت اور خدمت نہیں کرتے ان کے اوپر عذاب نازل ہوتا ہے اور ان کی روزی تنگ ہوجاتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَہَانَنْ ٭ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الَیَتِیْمَ ﴾ ( فجر : 16۔17 ) ترجمہ : جب اس کا رب اسے آزماتا ہے اور اس کی روزی اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔ ہرگز نہیں ! بلکہ تم یتیم کی عزّت نہیں کرتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی خدمت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی خوش خبری دی ہے۔
|