Maktaba Wahhabi

262 - 305
تھے، اﷲ تعالیٰ نے آپکو اپنے عہد میں وہ عزّت اور شہرت عطا فرمائی تھی کہ جس شہر و علاقے کا رُخ فرماتے حصولِ علم کیلئے ہزاروں کی تعداد میںعلماء اور طلباء پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑتے، آپ سے حصولِ علم کی نسبت کو اپنے لئے فخر جانتے تھے، جب آپ خراسان کے مشہور شہر" مَرْوَ"تشریف لائے تو طلباء کی ایک بڑی جماعت علمی استفادہ کیلئے خدمت میں آئی، انہیں میں ایک نوعمر لڑکا،عزیز الدین اسماعیل بن الحسن المروزی الحسینی نامی تھا، جسکی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں تھی، لیکن علم انساب کا ماہر تھا، جب آپ کو اس لڑکے کی اس علم میں مہارت کا پتہ چلا تو آپ نے اس لڑکے سے گذارش کی کہ وہ یہ علم انہیں سکھادے کیونکہ آپ اس علم میں ماہر نہیں تھے، آپ نے اس لڑکے کو استاذ کی جگہ بٹھایا اور خود اسکے آگے شاگرد کی طرح باادب ہوکر بیٹھ گئے حالانکہ آپ اس وقت اپنی امامت، جلالتِ علمی اور شہرت کی انتہائی بلندیوں پرفائز تھے لیکن اس شہرت اور امامت کے باوجود ایک نوعمر استاد کے آگے زانوئے تلمّذ تہہ کرتے ہوئے کسی علمی غرور کا شکار نہیں ہوئے، بلکہ یہ واقعہ آپکی علمی رفعت کا ایک اور سبب بن گیا جس سے آپکی سیرت میں چار چاند لگ گئے۔ اس واقعے کا تذکرہ مشہور مؤرخ یاقوت حمو ی نے اپنی مشہور کتاب'' معجم الأدباء'' عزیز الدین اسماعیل بن الحسن المروزی الحسینی کے تذکرے میں کیا ہے۔ 8۔اساتذہ ٔکرام نے اپنے شاگردوں کو چاہے وہ وقت کے شہنشاہ بھی کیوں نہ ہوں جب ان میں کوئی کجی یا خامی دیکھی تو بالکل اسی طرح ڈانٹ دیا جس طرح ایک مشفق باپ اپنے بیٹے کی کسی کوتاہی پر سر زنش کرتا ہے۔ ہندوستانی شہنشاہوںمیں سلطان محی الدین اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اﷲ علیہ ہی وہ
Flag Counter