بادشاہ ہے جس نے افغانستان سے برما اور تبّت سے کنیا کماری تک بلا شرکتِ غیرے تقریبًاپچاس سال تک حکمرانی کی،سلطانی سے پہلے عالمگیر کی زندگی ایسی ہی رنگین ہوا کرتی تھی جو مغل شہزادوں کا خاصّہ تھی، وہ نہ صرف موسیقی کا دلدادہ بلکہ اسمیں کمال رکھتا تھا،ابھی اسمیں اس مذہبی تقشّف وتزہد کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا جو بعد میں ظاہر ہوا، لیکن استاذ کی ایک بات نے اسکی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا،جو کل تک رنگینیوںمیں بے مثال تھا، اسنے اسے پرہیزگار، تہجد گذاراور عابدِ شب زندہ دار بنادیا۔
1658ء میںجب یہ ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اسکے استاذ علامہ جیون رحمہ اﷲ مصنّف" نور الأنوار"کو پتہ چلا کہ میرا شاگرد ہندوستان کا بادشاہ بنا ہے، انہوں نے اپنی بیگم سے کہہ کربادشاہ کیلئے خصوصی باجرے کے گلگلے پکائے اور آگرہ روانہ ہوئے بادشاہ کے محل میں اسکے مہمان بنے، عالمگیر کو بڑی محبت وشفقت سے اپنے گھر سے لائے ہوئے گُلگُلے پیش کئے، بادشاہ نے ایک گلگلا منہ میں کیا رکھا کہ زور کی اُبکائی آئی،بادشاہ کی اس نزاکت کو دیکھتے ہوئے ملّا جیون رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا : "بادشاہ سلامت ! حرام کے لقمے کھا کھا کر شاید آپکو حلال کا لقمہ حلق سے نہیں اتر رہا ہے"۔
استاد کی اس ایک بات نے اورنگ زیب کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا، اس کے بعد کی ساری زندگی اس نے اپنے ہاتھ کی کمائی،یعنی ٹوپیوں کی سلائی اور قرآنِ مجید کی کتابت سے حاصل ہونے وا لی آمدنی پر گذاردی،گھوڑے کی پیٹھ پر پچاس سال تک حکمرانی کرنے والے اس عظیم الشان فرمانروا نے مرنے سے پہلے یہ وصیّت کی کہ میرے کفن دفن کے لئے عوامی خزانہ سے پھوٹی کوڑی بھی نہ لی جائے بلکہ میری اپنی ذاتی کمائی سے سفر آخرت کے سارے انتظامات کئے جائیں۔[1]
|