انہیں فائدہ پہنچاتی ہے۔
1۔اسلاف اپنے اساتذہ کرام کا بے حد ادب واحترام کیا کرتے تھے، حبر الأمت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی جلالتِ شان کے باوجود زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے چلتے اور فرماتے :'' ھٰکَذَا أُمِرْنَا أَنْ نَفْعَلَ بِعُلْمَائِنَا ''ہمیں اسی طرح اپنے علماء کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
2۔إمام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ، اپنے استاذ خلف الأحمر رحمہ اﷲکے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے :" لَا أَقْعُدُ إِلاَّ بَیْنَ یَدَیْکَ، أُمِرْنَا أَنْ نَتَوَاضِعَ لِمَنْ نَتَعَلَّمَ مِنْہُ " میں اس طرح دوزانو ہوکر آپکے ہی سامنے بیٹھوں گا، کیونکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جن سے ہم نے علم حاصل کیا ان سے انکساری سے پیش آئیں۔[1]
یہ وہی إمام اہلِ سنّت ہیں جب کبھی بادشاہوں کے دربار میں بدرجۂ مجبوری جاتے تو پیر پھیلا کر بیٹھتے، ایک مرتبہ خلیفہ متوکل نے خدمت میں سیم وزر سے بھری ہوئی تھیلی پیش کی، عرض گذار ہوا کہ قبول فرمالیں، تو جواب دیا : جو بادشاہوں کے سامنے پیر پھیلاتا ہے وہ کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔(علمائے سلف : از مولانا حبیب الرحمن خان شروانی )
3۔أمیر المؤمنین فی الحدیث إمام بخاری رحمہ اﷲ، إمام مسلم رحمہ اﷲ کے استاذِ محترم تھے، جب آپ نیشاپور پہنچے تو إمام مسلم رحمہ اﷲ نے امراء وروساء اور علمائے شہر کے ساتھ باہرنکل کر آپ کا پر تپاک والہانہ استقبال کیا اور فرطِ عقیدت سے فرمایا : " دَعْنِیْ أُقَبِّلُ رِجْلَک"اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں آپکے قدم چوم لوں۔[2]
|