پیش کی جاتی ہے کہ عورت کو حالتِ نماز میں چہرہ اور ہاتھ کُھلا رکھنے کی اجازت ہے انہیں ڈھانپنے کا حکم نہیں ہے، اسلئے یہ دونوں پردے کے دائرے سے خارج ہیں۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ بالکل بے تکی دلیل ہے، کیونکہ نماز کی ستر پوشی ایک الگ چیز ہے اور انسانوں سے پردہ الگ چیز. بسا اوقات نماز میں ایک چیز کے پردے کا حکم ہے، مگر انسانوں سے اس کے پردے کا حکم نہیں، مثلاً : مرد کو نماز میں کندھے ڈھانپنے کا حکم ہے، مگر انسانوں کے سامنے نہیں۔ بس اسی کے بر عکس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نماز میں ایک چیز کے پردے کا حکم نہ ہو اور انسانوں کے سامنے ہو. در حقیقت نماز میں ستر کا حکم کچھ اور مقاصد رکھتا ہے اور انسانوں سے پردے کا حکم کچھ اور ہی مقاصد رکھتا ہے، لہٰذا ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کر سکتے"۔( پیشِ لفظ : مسلمان عورت کاپردہ اور لباس )
شرعی پردہ ڈھیلا ڈھالا اور چہرہ، ہاتھ اور سارے جسم کو چھپانے والا ہو، اتنا چُست نہ ہو کہ جسم چُھپنے کے باوجود نمایاں اور لوگوں کو راغب کرنے والا ہو، نظریں ہٹانے والا ہو نہ کہ نظریں جمانے والا، نقش ونگار والا نہ ہو، لیکن افسوس کہ آج برقعے کے نام پر جو کالا لباس پہنا جاتا ہے وہ اس قدر دلکش اور جاذبِ نظر ہوتا ہے کہ بقولِ شیخ سعدی ؒ بوڑھی پر بھی جوان کا گمان ہوتا ہے:
بسے خوش قامتے کہ زیرِ چادر باشد
چوں باز کنی مادرِ مادر باشد
بہت سی خوش قامت عورتیں جو چادر میں ہوتی ہیں، جب ان سے چادر ہٹائی جائے تو ماں کی ماں (نانی )ہوتی ہیں ( یعنی خوش رنگت چادر نے انہیں خوش قامت بنا دیا( اسی طرح آج کل کا کالا برقعہ بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے،حال یہ ہے کہ برقعہ پہنا ہے، خوب صورت اسٹائلش، نیا ڈیزائن، پرنٹیڈ،چمک دار، رنگیلا، بھڑکیلا اور کچھ
|