Maktaba Wahhabi

209 - 305
سنی تو اپنے چہرے کو اوڑھنی سے ڈھانک لیا۔( بخاری 4141:) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت :" کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَاوَنَحْنُ مَعْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُحْرِمَاتٌ فَإِذَا حَاذُوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَاجِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا، فَإِذَا جَاوَزْنَا کَشَفْنَاہُ "( أبوداؤد:1835 ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "سواروں کے قافلے ہم پر سے گذرتے اور ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں، جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم میں سے ہرایک اپنے گھونگھٹوں کو اپنے سر سے چہرے پر لٹکالیا کرتیں، اور جس وقت وہ گذر جاتے ہم اپنے چہروں کو کھول لیتیں"۔ ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمان عورت کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلے تو ضرور چہرہ کا پردہ کرے، اس لئے کہ چہرہ ہی خوبصورتی یا بد صورتی کا عنوان ہے، مشہور اسلامی اسکالر، محدّث اور سیرت نگار، استاذِ محترم مولانا صفی الرحمن صاحب مبارکپوری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : " چونکہ چہرہ حُسن وقبح کا اصل معیار ہے اور اس پر ابھرنے والے تاثرات دلی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور نگاہ پیغام رسانی کا کام انجام دیتی ہے، بلکہ خفتہ جذبات اور احساسات کو ابھارتی بھی ہے، اس لئے پردے کے حکم کا اولین نشانہ یہ ہے کہ چہرہ نگاہوں سے اوجھل رہے اور نگاہ سے نگاہ ٹکرانے نہ پائے۔ مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ علماء نے سب سے بڑھ کر اسی مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور بہت سے پُر جوش لوگوں نے اس بے احتیاطی کو عین منشائے اسلام قرار دیا ہے اور اس کے لئے عجیب وغریب" دلائل " پیش کئے ہیں، چنانچہ ایک دلیل یہ
Flag Counter